نور زاہد
صوبائی حکام نے بتایا ہے کہ دور افتادہ مشرقی افغان ضلعے میں واقع جن سینکڑوں مقامی دیہاتیوں کو داعش کے چنگل سے چھڑایا گیا ہے، وہ اس درخواست پر دستخط میں شامل ہوگئے ہیں جودولت اسلامیہ سے لڑنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
مشرقی صوبہٴ ننگرہار میں حکام نے بتایا ہے کہ اس میلشیا کا حصہ بننے کے لیے سینکڑوں افراد طویل قطاروں میں لگے ہوئے ہیں۔
شیرین آقا، ننگرہار میں افغان فوج کی خاتون ترجمان ہیں۔ اُنھوں نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا کہ ’’ہم نے مقامی افواج کی فہرستیں بنائی ہیں اور تعیناتی کے عمل کا آغاز کیا ہے۔ ہمارا صفائی کا کام جاری رہے گا جب تک مقامی فوج اس قابل بن جاتے کہ وہ سکیورٹی کے فرائض کی انجام دہی کرسکے‘‘۔
رنگروٹوں کو متعدد سکیورٹی چوکیوں پر تعینات کیا جائے گا، جو ضلعے کےغیر محفوظ علاقوں میں قائم ہوں گی۔ افغان قومی سلامتی افواج کے ارکان علاقے میں موجود رہیں گے تاکہ عبوری دور میں معاونت کریں گے۔ یہ بات خوگیانی نے کہی ہے جو ننگرہار گورنر کی خاتون ترجمان ہیں۔
خوگیانی نے کہا ہے کہ ’’آئندہ چند روز کے اندر یہ 500 افراد افغان قومی سلامتی افواج کے حلقوں سے لڑائی میں شامل ہوجائیں گے‘‘۔
ننگرہار پولیس کے ترجمان، حضرت حسین مشرقی وال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھرتی ہونے والوں کی اکثریت مقامی پولیس اور افغان سکیورٹی فورسز میں ضم ہوگی۔ اِن رنگروٹوں کو سرکاری طور پر معاوضہ دیا جائے گا۔
تاہم، رنگروٹوں کو اس بات کا خوف لاحق ہے کہ حکومت اُنھیں نیا اور بھاری اسلحہ فراہم نہیں کرے گی، جو داعش سے لڑنے کے لیے اُنھیں درکار ہوگا۔
ایک مقامی ساکن، مازیگر، جو متعدد افغانوں کی طرح صرف ایک نام سے جانے جاتے ہیں، کہا ہے کہ ’’جب تک ہمیں بھاری اسلحہ اور ہتھیار فراہم نہیں کیا جاتا، مجھے یقین نہیں آتا آیا محض کلاشنکوف (خودکار رائفل) اور پرانی بندوقوں کی مدد سے ہم علاقے کا تحفظ کر سکیں گے‘‘۔
مشرقی وال نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ مرکزی حکومت دیہاتیوں کو ہتھیاروں کی رسد فراہم کرے گی۔