آسٹریلیوی نسل کے گانے والے ایک پرندے زیبرہ فنچ کے ڈی این اے پر بین الاقوامی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں کئی نئے پہلو سامنے آئے ہیں اور یہ اشارے ملے ہیں کہ انسان نے کس طرح بولنا شروع کیا تھا۔
آسٹریلیوی نسل کے چھوٹےسے خوش الحان پرندے زیبرہ فنچ کے نر کےگلے میں کالی اور سفید دھاریاں ہوتی ہیں۔ پرندوں کی اس نسل میں نرپرندے ہی گاتے ہیں۔کئی دوسرے پرندوں کے برعکس زیبرہ فنچ اسیری میں بھی بخوبی اپنی زندگی گذارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جس کی وجہ سے یہ پرندے پالنے والے لوگوں میں بہت مقبول ہے اور اپنی اس خصوصیت کے باعث یہ پرندہ ان سائنس دانوں کے لیے بھی بہت کشش رکھتا ہے جو پرندوں پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔
سان فرانسسکو کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے نفسیات اور دماغ سے متعلق سائنس دان ایلی سن ڈوپے(Allison Doupe) نے اس ننھے پرندے پر یہ جاننے کے لیے تحقیق کی کہ انسان نے کس طرح بولنا سیکھا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ چھوٹے انسانی بچوں کی طرح گانے والے پرندے بھی اپنی زندگی کے ابتدائی عرصے میں بڑے غور سے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ بڑے پرندے کس طرح گارہےہیں۔ اس کے بعد وہ نقل کرتے ہوئے گانے کی مشق کرتے ہیں۔ ابتدا میں ان کے گانے انسانی بچوں کی غوں غاں جیسے ہوتے ہیں۔وہ مشق کے دوران یہ غور کرتے ہیں کہ وہ کس طرح طرح گارہے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کا گانا بہتر ہونے لگتا ہے۔
پروفیسر ڈوپے کہتے ہیں کہ اس طرح ان پرندوں میں بولنا سیکھنے کی عادات انسانوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔
گانے والے پرندے جانوروں کے اس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں انسانوں کی طرح بولنا سیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔اس گروپ کے دوسرے جانوروں میں ہیل ، ہاتھی اور چمگاڈریں شامل ہیں۔ ماہرین زیبرہ فنچ بولنا سیکھنے کی صلاحیت سے متعلق جینز کاپتا چلانے کے لیے تحقیق کررہےہیں۔
اوربانا شمپین میں قائم یونیورسٹی آف الی نوائے کے نیورو بیالوجسٹ ڈیوڈ کلیٹن(David Clayton)، زیبرہ فنچ پر ہونے والی اس جینیاتی ریسرچ سے متعلق بین الاقوامی تحقیقی ٹیم کے ایک اہم رکن ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی پرندہ کسی دوسرے پرندے کا گانا سنتا ہے یا خود گاتا ہے تو اس عمل میں اس کے دماغ کے بہت سے جینز حصہ لیتے ہیں۔
کلیٹن لیبارٹری میں ہونے والے ایک سابقہ مطالعاتی جائزے سے یہ ظاہر ہواتھا کہ جب ننھا فنچ پہلی بار گانا سیکھتا ہے تو اس کے دماغ میں سینکڑوں جینز تیزی سے فعال ہو جاتے ہیں اور وہ پروٹینز کی کچھ مقدار پیدا کرتے ہیں۔
اب جب کہ ماہرین زیبرا فنچ کے جینیاتی نقشے سے پوری طرح آگا ہ ہوچکے ہیں ، انہوں نےبالغ فنچ کے دماغ کے جینز کا گانے کے عمل کے دوران جائزہ لیا۔ کلیٹن کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہوا کہ اس عمل میں حیرت انگیز طورپر جینز کی ایک بڑی تعداد فعال ہوجاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں ہمیں معلوم ہوا کہ جب فنچ گاتا ہے تو اس کے دماغ کے کم ازکم آٹھ سو جینز حرکت میں آجاتے ہیں۔
سینٹ لوئیس میں قائم واشنگٹن یونیورسٹی کے جینیاتی مرکز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور اس تحقیق کے ایک رکن ویس وارن (Wes Warren)کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ گانے والے پرندے کے دماغ میں جو پیچیدہ جینیاتی عمل انجام پاتا ہے ، ویسا ہی عمل ہمارے دماغ میں بھی ہوتا ہو۔
وارن کہتے ہیں کہ اب جب کہ ماہرین کے پاس زیبرہ فنچ کا جینیاتی نقشہ موجود ہے، وہ اس بات کی نشان دہی کے لیے تجربات کرسکتے ہیں کہ اس کے دماغ کے کون سے جینز سننے اور گانے کے عمل میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں اور پھر مزید ریسرچ کے بعد وہ یہ پتا لگا سکتا ہیں کہ انسان میں گویائی کے نقائص یا بیماریوں ، مثلاہکلاہٹ ، آٹزم اور پارکنسن ،کے حوالے سے کون سے جینز اہم ہوتے ہیں۔