سونی پکچرز نے کہا ہے کہ وہ اب بھی پُرامید ہے کہ شمالی کوریا کے لیڈر، کِم جونگ اُن کے قتل کی سازش کے پلاٹ پر بننے والی متنازع فلم اب بھی نمائش کے لیے جاری ہو سکتی ہے۔
ہالی ووڈ میں قائم اِس ادارے کے اسٹوڈیوز میں تیار ہونے والی اس مزاحیہ فلم، ’دِی انٹرویو‘ کے کمپیوٹر کو ہیکنگ کا شکار بنایا گیا تھا، جس کا الزام امریکی حکام نے شمالی کوریا پر عائد کیا ہے۔
شمالی کوریا نے تردید کی ہے کہ وہ سونی پکچرز کے کمپیوٹر نیٹ ورک کو ہیک کرنے میں ملوث ہے یا پھر اُس نے انٹرنیٹ پر شرمناک نوعیت کی اِی میلز روانہ کی ہیں، یا دیگر نجی ڈیٹا شائع کیا ہے یا فلم سے متعلق پراجیکٹس کو چھیڑا ہے۔
تاہم، اس کمیونسٹ ریاست نے اس کمپیوٹر حملے کو ایک ’درست کارکردگی‘ قرار دیا ہے۔
شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ وہ اِس معاملے میں ملوث نہیں، اور ہفتے کے روز یہ تجویز پیش کی کہ وہ امریکہ سے مل کر اِس ہیکنگ کے واقعے کی چھان بین پر تیار ہے۔
ساتھ ہی، ایک حیران کُن وضاحتی بیان میں، شمالی کوریا کی وزارتِ خارجہ کے ایک نامعلوم ترجمان نے ’خوفناک نتائج‘ بھگتنے کا انتباہ دیا ہے، اگر امریکہ مشترکہ تفتیش کی یہ دعوت قبول کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
سونی نے بدھ کے ہیکنگ کے واقع کے نتیجے میں، 25 دسمبر سے اپنی مزاحیہ فلم کی نمائش روک دی ہے۔
انٹرنیٹ حملہ آوروں نے، جو فلم کمپنی کے کمپیوٹر میں داخل ہوگئے تھے، ہزاروں دستاویزات چوری کیے، اور اپنی شناخت ’دِی گارڈینز آف پیس‘ ظاہر کی۔ اُنھوں نے متنبہ کیا کہ فلم کے شائقین کو ’سخت مزا چکھایا جائے گا‘۔
’سونی پکچرز‘ کے سربراہ، مائیکل لِنٹن نے جمعے کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اسٹوڈیوز کے پاس فلم کی نمائش منسوخ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے، اِس لیے کہ امریکی تھیٹرز فلم دکھانے پر تیار نہیں تھے۔
تاہم، انٹرویوز میں، اُنھوں نے بتایا کہ سونی ہیکرز کی دھمکی کے نتیجے میں نہ تو ’جھک‘ رہی ہے، ناہی اپنے منصوبے ترک کر رہی ہے۔ کمپنی نے کہا ہے کہ کوئی ایسا طریقہٴکار ڈھونڈ رہی ہے، جس سے لوگ یہ فلم دیکھ سکیں، عین ممکن ہے کہ اِسے ’وڈیو آن ڈمانڈ‘ سروس یا پھر انٹرنیٹ کے ذریعے جاری کیا جائے۔
جمعے کو اپنے وائٹ ہاؤس خطاب میں، صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ فلم کی نمائش منسوخ کرکے سونی نے غلطی کی ہے۔
صدر کے بقول، ہمارا معاشرہ ایسا نہیں جو کسی خطے کے آمر کی طرف سے عائد کردہ سنسرشپ کو قبول کر لے۔