وائٹ ہاؤس کے اہل کاروں کے مطابق، منگل کی رات اپنے ’اسٹیٹ آف دی یونین خطاب ‘میں، صدر براک اوباما 10 امریکی ملاحوں کے واقع کا ذکر نہیں کریں گے، جنھیں ایران نے حراست میں لیا ہوا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ڈائریکٹر برائے مواصلات، جین ساکی نے ’سی این این‘ کے پروگرام میں ولف بلٹزر کو بتایا کہ اپنے خطاب میں اوباما کا ’اِس معاملے پر بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں‘۔
دیگر امریکی حکام نے اس واقع پر زیادہ رائے زنی سے احتراز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے ملاحوں کی ’فوری طور پر‘ رہائی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، جن کے بارے میں ایران کا کہنا ہے کہ وہ بھٹک کر خلیج فارس کے پانیوں میں آگئے تھے۔
برعکس اس کے، اوباما کا ساتواں اور آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب پُرعزم امید کی نوید دیگا۔ یہ بات اُن نکات میں کہی گئی ہے جو خطاب سے قبل جاری کیے گئے ہیں، جن میں اُن امنگوں کو پیش کیا گیا ہے جن پر آئندہ توجہ دی جائے گی۔
یہ صدر براک اوباما کے عہدہٴ صدارت کا ساتواں اور آخری سال ہے۔ منگل کی شام گئے جب وہ کانگریس اور امریکی عوام کے سامنے کھڑے ہوں گے، جہاں وہ نہ صرف اپنی میعادِ صدارت کے باقی ماندہ مہینوں کےبارے میں اپنا نصب العین بیان کریں گے، بلکہ امریکہ کے مستقبل کے بارے میں مفصل بیان دیں گے۔
صدر کے خطاب کے حوالے سے اوول آفس کی جانب سے جاری کردہ ایک وڈیو میں، صدر اوباما نے کہا ہے کہ ’نہ صرف یہ کہ ہم نے قابل ِقدر پیش رفت کی ہے، اور صرف یہی نہیں کہ میں اس سال کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، لیکن ایسا ہے کہ آئندہ برسوں کے دوران مل کر ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اہم کام جس کی بدولت ہمارے بچوں کےلیے زیادہ مضبوط، بہتر، زیادہ خوش حال امریکہ کی تعمیر ہو سکے‘۔
اوباما پُرامید ہیں
وڈیو میں، اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ جس راہ پر گامزن ہے، میں اُس پر بہت زیادہ پُراعتماد ہوں۔ میں نہ صرف بہتر 2016ء میں یقین رکھتا ہوں، بلکہ آئندہ سالوں کے دوران بہتری کی توقع رکھتا ہوں، جس کے لیے وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ منگل کو جب صدر اپنا اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کریں گے، تب ہی اس کی اہمیت کا درست اندازہ ہوگا۔
وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری، جوش ارنیسٹ کے بقول، ’امریکہ کساد بازاری کی اُس صورتِ حال سے باہر نکل آیا ہے جو ملک کو 30 کی دہائی کی شدید کساد بازاری کے بعد ہمیں درپیش تھی۔ ہم دنیا کے تمام ملکوں میں اِسی قسم کے معیشت کے عدم استحکام کے مسائل دیکھ رہے ہیں، جس کے برعکس، امریکی معیشت کئی گنا مضبوط ہے‘۔
گذشتہ سال کے مقابلے میں، جب صدر اوباما نے خاص تجاویز پیش کی تھیں، جن میں کمیونٹی کالج کی ٹوشن اور سائبر سکیورٹی کے لیے امدادی رقوم فراہم کی گئی تھیں، ارنیسٹ نے کہا کہ اس سال صدر ملک کے بارے میں اپنے طویل مدتی نصب العین پر دھیان مرکوز رکھیں گے، ساتھ ہی وہ اُس منفی رائے کو دور کرنے کی کوشش کریں گے، جو امور رائے عامہ کے جائزوں اور صدارتی انتخابی مہم کے دورن سامنے آرہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے حالیہ دِنوں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ، ’مخالفین اتنی لفاظی سے کام لے رہے ہیں؛ جب کہ ہم ایسی باتیں سن رہے ہیں جو ہمارے مستقبل کے بارے میں خوف پھیلانے پر مبنی ہیں، اور بدلتی ہوئی دنیا کے بارے میں بے چینی اور غیرمحفوظ ہونے سے متعلق ہیں۔ درحقیقت، دنیا کے کسی دیگر ملک کے مقابلے میں امریکہ ہر اعتبار سے بہتر پوزیشن میں ہے، اور ہم اُن مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں‘۔
ایسے میں جب متوقع طور پر صدر کانگریس کے سامنے قانون سازی کی واضح تجاویز نہیں رکھیں گے، امید ہے کہ وہ قانون سازوں پر زور دیں گے کہ صدارت کی باقی میعاد کے دوران غیر مکمل ایجنڈا پر عمل درآمد ہو، جس میں ’ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ‘ تجارتی سمجھوتے اور کیوبا کے گوانتانامو بے میں قائم امریکی فوجی قیدخانے کو بند کرنے کے بارے میں اقدامات کی منظوری کا معاملہ شامل ہے۔
کامیابیوں کی نشاندہی
وائٹ ہاؤس کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ صدر منگل کو اپنے خطاب کے دوران کامیابیوں کا غیر ضروری ذکر نہیں کریں گے۔ تاہم، سنہ 2009 جب سے وہ عہدہٴ صدارت پر فائز ہوئے ہیں، اُن کا ذکر ضرور کریں گے۔
نو جنوری کے اپنے ہفتہ وار ریڈیو خطاب میں اوباما نے کہا تھا کہ ’ہمارے کاروباری ادارے پچھلے 70 ماہ کے دوران روزگار کے مواقع میں اضافہ کرتے آئے ہیں، جس دوران اب تک ایک کروڑ 40 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ہم اپنے اسکولوں میں بہتری لانے اور کالج کی تعلیم میں اخراجات کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ ہم نے صاف و شفاف توانائی کے شعبے میں سنگ میل نوعیت کی سرمایہ کاری کی ہے، جب کہ ہم نے کاربن کے اخراج میں کمی لانے کے ہدف کو ترجیح دی ہے‘۔
گذشتہ برسوں کی طرح، اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے فوری بعد، صدر اپنے منصوبوں کو عملی شکل دینے کی راہ پر گامزن ہوں گے، وہ اِسی ہفتے لوزیانہ اور نبراسکا کا دورہ کریں گے، جہاں وہ، وائٹ ہاؤس کے مطابق، بے روزگاری کو کم کرنے اور صحت عامہ کی دیکھ بھال میں بہتری لانے کے کام کی پیش رفت کی نشاندہی کریں گے۔
عالمی سطح پر، توقع ہے کہ صدر اوباما کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات دوبارہ استوار کرنے، ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتا طے کرنے اور پیرس میں بین الاقوامی موسمیاتی سمجھوتے کے حصول کی کوشش میں اپنا حصہ ڈالنے کے بارے میں ذکر کریں گے۔
سیاسی تجزیہ کار، میتھیو ڈیلک کے الفاظ میں، ’مجھے یقین ہے کہ صدر اپنی فخریہ کامیابی (صحت عامہ) کا ضرور حوالہ دیں گے، اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ بین الاقوامی امور کے مختلف میدانوں میں اپنی کامیابی کی نشاندہی کریں گے۔ اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، لوگ خود ہی اُس کے بارے میں اپنی رائے قائم کریں گے‘۔
آئندہ چیلنجوں کا مقابلہ
جورج واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے، میتھیو ڈیلک نے مزید کہا کہ اِن کامیابیوں کے ساتھ ساتھ، اوباما دہشت گردی اور داعش کے شدت پسند گروہ کے خلاف جاری لڑائی کے چیلنج پر تفصیلی بات کریں گے۔