حال ہی میں جنوبی افریقہ میں تپ دق کے مرض پر مؤثر کنٹرول کے لیے ایک نئی ویکسین کی تیاری کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے، جس سے اس موذی مرض سے بچاؤ میں مدد ملنے کا امکان ہے۔
اس نئے عالمی پروگرام کے تحت اگلے دس برس تپ دق سے بچاؤ کے لیے ایک محفوظ اور مؤثر ویکسین کی تیاری پر صرف کیے جائیں گے اور توقع کی جارہی ہے کہ نئی ویکسین کی پیداوار 2022ء تک شروع ہوجائے گی۔
ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 90 لاکھ افراد ٹی بی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان میں سے تقریباً 14 لاکھ اس مرض کے مقابلے میں اپنی جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔
ٹی بی کا مرض اکثر اوقات ان افراد کو لگ جاتا ہے جو ایچ آئی وی کے وائرس سے متاثرہ ہوتے ہیں ، یہ وائرس ایڈز کے جان لیوا مرض کا سبب بنتا ہے۔
حالیہ برسوں میں تپ دق کی ایسی اقسام میں اضافہ ہورہاہے جو کئی دواؤں کے خلاف مزاحمت رکھتی ہیں۔
ڈیوڈ ممتجا ، جو جنوبی افریقہ کے محکمہ صحت میں ٹی بی پر کنٹرول کے شعبے کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ تپ دق پر قابو پانے کا واحد حل اس کی ویکسین کی تلاش میں ہے۔
ٹی بی اور ایچ آئی وی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی ایک آزاد تنظیم اورن انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ گاون شرکیارڈ کا کہناہے کہ تپ دق پر مؤثر کنٹرول کے لیے جنوبی افریقہ میں کی جانے والی تحقیق انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی افریقہ کے ماہرین ٹی بی کی تشخیص اور اس کی ویکسین کی تیاری کے لیے نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن کے ٹی بی ویکسین سے متعلق پروگرام کے سربراہ حسن محمد کہتے ہیں کہ ٹی بی کی ویکسین پر دنیا بھر میں کیے جانے والے زیادہ تر تجربات کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں پانچ تحقیقی مراکز کام کررہے ہیں اور وہ ٹی بی کی نئی ویکسین پر طبی تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور اس وقت اس مرض پر قابو پانے کے لیے جن 12 ویکسینوں پر کام جاری ہے ان میں سے چھ پر جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ ہورہے ہیں۔
حسن کا یہ بھی کہناتھا کہ نئی اور مؤثر ویکسین کی حتمی تیاری کے لیے مقامی سائنس دان براعظم افریقہ میں واقع نو تحقیقی اداروں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔