گزشتہ دنوں، جنوبی کوریا میں دکھائے جانے والےایک قسط وار ڈرامے کو دو اقساط کے بعدبند کرنا پڑا کیونکہ لوگ اس پر مشتعل ہوگئے تھے۔ اشتعال کی وجہ اس میں چینی رسم و رواج کا غیر ضروری حد تک غلبہ تھا جسے کوریا کے عوام سخت ناپسند کیا ۔
یہ واقعہ جنوبی کوریا کے لوگوں کا ان کی تفریح اور ان کی تاریخ اور ثقافت پر چین کےبڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کے خلاف شدید مزاحمت کا عکاس بھی ہے۔
پچھلے چند مہینوں سے چین کے میڈیا میں کوریائی لوگوں کی مرغوب خوراک، کِم چی کی ابتدا چین میں ہونے کے دعووں پر بھی جنوبی کوریا کے قوم پرستانہ جذبات کو ٹھیس پہنچی۔
اِس کشیدگی کے پس پردہ، چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت، اور اپنے ہمساؤں کی جانب اس کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے پر کوریائی عوام کا وسیع تر بے چینی ہے، جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بیچنگ کی جانب سے علاقے میں اپنی غالب حیثیت کے دعوے کی کوشش بھی ہے۔
جنوبی کوریا میں چین کے بارے میں اتنا برا تاثر پہلے نہیں تھا۔ پیو ریسرچ سینٹر کے ڈیٹا کے مطابق، سن 2015 میں جنوبی کوریا کے 37 فیصد لوگ چین کے بارے میں منفی سوچ رکھتے تھے لیکن سن 2020 میں یہ تعداد 75 فیصد تک پہنچ گئی۔
جنوبی کوریا اور چین کے تعلقات سن 2017 میں اس وقت خراب ہونا شروع ہو گئے جب جنوبی کوریا نے شمالی کوریا سے بچاؤ کیلئے امریکہ کا تیار کردہ ٹرمینل ہائی ایلٹٹی چوڈ ایریا ڈیفینس (ٹھاڈ) میزائلی دفاعی نظام نصب کیا۔ چین نے اس کی تنصیب پر اعتراض کیا کیونکہ یہ میزائلی نظام چین کے اندر تک دیکھ سکتا ہے۔
انتقاماً چین نے جنوبی کوریا کے خلاف معاشی سختیوں کی ایک مہم کا آغاز کیا۔ جنوبی کوریا کی سیاحت کیلئے جانے والے چین کے لوگوں کے دورے روک دئے گئے۔ چین میں جنوبی کوریا کی کمپنی "لوٹے" کے سٹور بند کر دئے گئے، کیونکہ اس کمپنی نے تھاڈ سسٹم کیلئے جگہ فراہم کی تھی۔
جنوبی کوریا کے پاپ فنکاروں کے چین میں کنسرٹ منسوخ کر دئے گئے۔ یہ فنکار چین میں بہت مقبولیت رکھتے تھے۔
سیول میں مقیم سیاسیات کے ماہر، کِم جی یون کا کہنا ہے کہ تھاڈ آیا اور سب کچھ تبدیل ہو کر رہ گیا۔
حال ہی میں کِم چی پر ایک ثقافتی جنگ کا بھی آغاز ہوا ہے جو کہ ایک سطح پر جذباتی بھی ہے۔ کم چی پر چین کے دعوں نے جنوبی کوریا کے عوام میں اشتعال پیدا کیا ہے، جو کم چی کو اپنی قومی ڈش قرار دیتے ہیں۔ بند گوبھی سے بنی یہ دش تقرباً ہر کھانے کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔
چین اور جنوب کوریا میں سن 1992 میں سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ اس وقت سے تعلقات زیادہ تر مستحکم رہے ہیں حالانکہ چین شمالی کوریا کا اور امریکہ جنوبی کوریا کا اتحادی ہے۔
دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین، جنوبی کوریا کا ہمسایہ ہے، جس سے وہ اس وقت ایک مشکل پوزیشن میں ہے۔ جنوبی کوریا میں تیس ہزار کے قریب امریکی فوجی تعینات ہیں جبکہ دوسری جانب اس کا معاشی انحصار زیادہ تر اپنے ہمسائے چین سے لین دین پر ہے۔
جنوبی کوریا کے عوام، پوری طرح سے امریکہ کے حق میں ہیں جبکہ حکومت چین کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتی۔
گاہے گاہے چین اب بھی تھاڈ کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہتا ہے، تاہم اب ایسے آثار نظر آ رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے صدر ژی جن پنگ کے جنوبی کوریا کے ممکنہ دورے سے پہلے، دونوں ملکوں کے سفارتی روابط میں بہتری آئے گی۔