جنوبی کوریا کے صدارتی گارڈز اور سیکیورٹی اہلکاروں نے کئی گھنٹوں کی کشیدہ صورتِ حال کے بعد حکام کو مواخذے کی کارروائی کا شکار صدر یون سک یول کو گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔ بغاوت اور اختیارات کا غلط استعمال کرنے کی تفتیش کے سلسلے میں جمعے کی صبح جب تفتیش کار پولیس اہلکاروں کے ہمراہ مرکزی سول میں واقع صدر کی سرکاری رہائش گاہ پہنچے تو وہاں انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے صدر کو حراست میں لینے کا عمل معطل کر دیا ہے۔ صدر کو گرفتار کرنے کے لیے جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مزاحمت اور سائٹ پر موجود اہلکاروں کی حفاظت کے پیشِ نظر عدالت سے منظور شدہ حراستی وارنٹ پر عمل درآمد کرنا "عملی طور پر ناممکن" تھا۔
کرپشن انویسٹی گیشن آفس کے مطابق رہائش گاہ کے کمپاؤنڈ میں معمولی تصادم کے بعد جب حراستی ٹیم یون کی رہائش گاہ کے 200 میٹر کے اندر پہنچی تو وہاں لگ بھگ 200 اہلکاروں اور مسلح سیکیورٹی اہلکار موجود تھے جنہوں نے مزید کارروائی سے روک دیا۔ تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ حراستی وارنٹ سے متعلق اگلے اقدامات کا جائزہ لیں گے۔
جنوبی کوریا میں اس سیاسی افراتفری کا آغاز ایک ماہ قبل تین دسمبر کو اس وقت ہوا تھا جب صدر یون سک یول نے ملک میں مارشل لا کا اعلان کیا۔ تاہم چند گھنٹوں بعد ہی قانون سازوں کی طرف سے اسے مسترد کر دیا گیا تھا جس کے بعد صدر کو مارشل لا اٹھانا پڑا تھا۔ بعد ازاں صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی کی گئی اور ان کے صدارتی اختیارات کو معطل کر دیا گیا۔ صدر کے عہدے پر رہنے یا نہ رہنے سے متعلق حتمی فیصلہ آئینی عدالت نے کرنا ہے۔ یون سک یول کو اس کے علاوہ بغاوت اور مارشل لا کے اعلان سے متعلق اختیارات کے غلط استعمال پر تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔ یون کو تحقیقات کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے تین مرتبہ سمن کیا گیا تھا لیکن ان کی عدم پیشی کے بعد عدالت نے رواں ہفتے ان کے حراستی وارنٹ جاری کیے تھے۔