چاند کے روشن چہرے پر ایک اور داغ لگنے والا ہے۔ اور اس کا سبب ہے خلا میں بھٹکتا ہوا لگ بھگ تین ٹن وزنی کسی نامعلوم راکٹ کا ٹکڑا جو پانچ ہزار 800 میل فی گھنٹہ یعنی 9 ہزار 300 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیزی سے چاند کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔ اور اندازہ ہے کہ وہ جمعے کے روز چاند سے ٹکرا جائے گا۔
سائنس دان دوربینوں اور سیٹلائٹس کی مدد سے اس آوارہ ٹکڑےپر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ سمتھ سونیئن سینٹر فار ایسٹروفزکس کے ایک ماہر فلکیات میک ڈویل کہتے ہیں کہ اس کے ٹکرانے سے چاند کی سطح پر ایک گڑھا پڑ جائے اور گرد و غبار کا ایک بڑا بادل بلند ہو گا۔
چاند پر چونکہ کرہ فضائی نہیں ہے اور اس کی کشش ثقل بھی زمین کے مقابلے میں بہت کم ہے اس لیے گرد و غبار کے چھٹنے میں ہفتوں بلکہ مہینوں لگ سکتے ہیں اور اس کے بعد ہی یہ اندازہ ہو سکے گا کہ اس تصادم سے چاند کی سطح پر کتنا نقصان ہوا ہے۔
چاند پر پہلے ہی بے شمار گڑھے اور کھائیاں موجود ہیں جن کے متعلق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر شہابیوں کے چاندکی سطح سے ٹکرانے کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑے گڑھے کی لمبائی 1600 میل ہے۔
اکثر ماہرین کا خیال ہے متوقع طور پر چاند سے ٹکرانے والا راکٹ چین کا ہے۔ جب کہ چینی سائنس دان اسے مسترد کرتے ہیں۔
ماہرین فلکیات کا قیاس ہے کہ یہ تین حصوں پر مشتمل اس چینی راکٹ کا تیسرا حصہ ہے جسے چین نے 2014 میں چاند کی طرف روانہ کیا تھا۔ چینی حکام یہ اصرار کرتے ہیں کہ اس کے راکٹ کے کچھ حصے زمین کے کرہ فضائی میں داخل ہونے کے بعد جل کر راکھ ہو گئے تھے۔
یونیورسٹی آف ایریزونا کے فلکیاتی مرکز نے دوربینی مشاہدے سے اڑتے ہوئے اس آوارہ ٹکڑے کی شناخت چین کے راکٹ کے طور پر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 10 فٹ قطرکے 40 فٹ لمبے اس ٹکڑے کی شناخت اس کے رنگ سے ہوئی ہے۔
تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ راکٹ کا ٹکڑا کس ملک کا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب تین ٹن وزنی کوئی چیز 93 سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چاند کی سطح سے ٹکرائے گی تو اس سے 33 سے 66 فٹ گہرا گڑھا پیدا ہو گااور اس سے اٹھنے والی دھول اور مٹی سینکڑوں کلومیٹر تک پھیل جائے گی۔
سمتھ سونیئن کے ماہر فلکیات میک ڈویل کہتے ہیں کہ اب تک خلا میں بھیجی جانے والی چیزوں پر زیادہ نظر نہیں رکھی جا رہی تھی۔ اس وقت خلا میں کئی ملکوں اور نجی کمپنیوں کے راکٹ اور دیگر اجرام فلکی گردش کر رہے ہیں۔ جن میں سے کئی ایک کے بارے میں مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ان سب پر نظر اور ان کا ریکارڈ رکھا جائے۔