امریکہ کا ایک نیا سیٹلائٹ منگل کو فضا میں اُڑان بھرنے لیے تیار ہے، جس کا مقصد خلائی موسم کا مشاہدہ کرنا اور نظام شمسی کے خطرات پر نظر رکھنا ہے۔
اس امریکی خلائی گاڑی کا نام ’ڈیپ اسپیس کلائیمٹ آبزرویٹری (ڈی ایس سی او وی آر) ہے، جسے ’ڈسکور‘ کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ دراصل، اِسے اتوار کو خلا کی طرف روانہ کیا جانا تھا، لیکن ریڈار کی سوئی میں خرابی کے نتیجے میں اِسے مؤخر کیا گیا تھا۔ ریڈار کی مدد سے دوران پرواز راکیٹ کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔
یہ سیٹلائٹ فلوریڈا کے کیپ کیناورل سے سفر شروع کرے گا، اور ایسے مقام کی طرف جائے گا، جو چاند کی بنسبت تین گنا زیادہ دور فاصلے پر ہے، جہاں سورج اور زمین کی کشش ثقل ختم ہو جاتی ہے۔
اِس مقام سے، راکیٹ نظام شمسی کی برقی رو والے ذرات کی پھیلے ہوئی لہروں کا مشاہدہ کرے گا، اور زمین پر موسم کی پیش گوئی کرنے والوں کو نمودار ہونے والے نقصان دہ شمسی طوفانوں کا ایک گھنٹہ قبل انتباہ دے سکے گا۔
یہ طوفان بجلی کے پاور گرڈ کو ناکارہ بنا سکتے ہیں، سیٹلائٹس کو ٹھوکر مار سکتے ہیں اور ’جی پی ایس سگنلز‘ میں خلل پیدا کرسکتے ہیں۔
یہ متعدد امریکی سرکاری اداروں کا ایک مشترکہ منصوبہ ہے، جس میں ناسا، نیشنل اوشئنک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن اور امریکی فضائی فوج شامل ہے۔ اِس منصوبے پر 34 کروڑ ڈالر کا خرچہ آئے گا۔
اس سیٹلائٹ کو ناسا سے کانٹریکٹ پر ایک نجی ادارہ، ’اسپیس ایکس‘ روانہ کر رہا ہے۔
کیلی فورنیا میں قائم یہ کمپنی منگل ہی کو بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن جانے والے مال بردار جہاز کی واپسی کی تیاری کر رہی ہے۔ اسپیس ایکس کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ وہ بیک وقت کئی آپرینشز کی تیاری کر رہی ہے۔
الون مسک، ارب بتی اور اس کمپنی کے مالک ہیں۔ یہ ادارہ راکیٹس کے دوبارہ استعمال کا خواہاں ہے، اور’ ڈسکور‘ کی اُڑان بھرنے کے بعد، منگل ہی کو خلا سے بحر اوقیانوس میں اترنے والے راکیٹ کو اپنے قبضے میں لے گا۔