اس وقت دنیا بھر میں ہزاروں پاکستانی کرونا لاک ڈاون اور پروازوں کی بندش کی وجہ سے مختلف ملکوں میں، جب کہ بیرونی ملکوں میں بسنے والے ہزاروں پاکستانی جو اس وقت پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں، کے لیے ایویشن ڈویژن نے خصوصی پروازوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
ایوی ایشن ڈویژن کے جوائنٹ سیکرٹری عبدالستار کھوکھر نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ 28 اپریل تک پی آئی اے کی 121 خصوصی پروازوں کے ذریعے بیرونی ملکوں میں پھنسے 10 سے 11 ہزار پاکستانیوں کو وطن واپس لایا جائے گا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک آباد ان 17 سے 18 ہزار پاکستانیوں کو، جو اس وقت پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں، ان کے ملکوں میں واپس بھجوایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو ہفتوں میں ہم پہلے دو ہزار اور پھر 6700 پاکستانیوں کو ملک واپس لائے اور پیر سے شروع ہونے والے ہفتے میں ہم 7 سے ساڑھے 7 ہزار پاکستانیوں کو واپس لانے کا اپنا ہدف پورا کرنے کے لیے کام کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی اس وقت سب سے بڑی ترجیح متحدہ عرب امارات میں پھنسے ان 30 ہزار پاکستانیوں کو وطن واپس لانا ہے، جو اس وقت بے روزگار ہیں یا جنہیں ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے یا جنہیں بغیر تنخواہ دیے کام لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان پاکستانیوں کی واپسی کے لیے 21 اپریل سے خصوصی پروازوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور 28 اپریل تک 16 خصوصی فلائٹس چلائی جائیں گی، جس کے بعد اگر ضرورت پڑی تو مزید پروازوں کا بندوبست کیا جائے گا۔
جب ان سے مسافروں کے لئے حفاظتی بندوبست کے بارے میں دریافت کیا تو عبدالستار کھوکھر نے بتایا کہ اس سے پہلے مسافروں کو صرف تھرمل ٹسٹ کے بعد گھر جانے دیا جاتا تھا اور مشتبہ مریضوں کو قرنطینہ یا اسپتال بھیج دیا جاتا تھا۔ لیکن اس طرح کچھ ایسے مسافر بھی گھروں میں پہنچ گئے، جن میں بخار یا دوسری علامتیں موجود نہیں تھیں، لیکن ان کے اندر یہ وائرس موجود تھا۔ اس لیے اب مسافروں کو کسی ہوٹل یا قرنطینہ مرکز میں بھیجا جاتا ہے، اس دوران ان کا مکمل ٹیسٹ کیا جاتا ہے، جس کی رپورٹ ملنے میں 24گھنٹے لگتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں 72 گھنٹے تک وہاں رکھا جاتا ہے۔ اگر رپورٹ منفی ہو تو گھر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے اور اگر مثبت ہو تو اسے اسپتال یا قرنطینہ مرکز میں بھیج دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکمت عملی یہ تھی کہ سب سے پہلے مختلف ہوائی اڈوں پر پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس لایا جائے، جس کے بعد ان افراد کو لایا جائے جن کے ویزوں کی مدت ختم ہو رہی ہے، اور اس کے بعد ہماری ترجیح مشرق وسطیٰ کے کچھ ملکوں سے ان پاکستانیوں کو واپس لانا ہے جن کی ملازمیتں کرونا وائرس کے سبب ختم ہو گئی ہیں یا انہیں تنخواہ کے ساتھ یا تنخواہ کے بغیر رخصت پر گھر جانے کا کہہ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھوٹے ائیرپورٹس پر پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو پہلے خشکی کے راستے دوسرے ملکوں میں کسی ایک ہوائی اڈے پر اکھٹا کیا گیا اور پھر چارٹر طیاروں کے ذریعے پاکستان لایا گیا۔
عبدالستار کھوکھر نے بتایا کہ جوں جوں ان کے پاس ٹسٹنگ اور جگہ کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا رہے گا، وہ واپس لانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہیں گے اور اس مشکل وقت میں ادارہ اپنی ذمہ داری بھرپور قومی اور انسانی ہمدردی کے جذبے سےادا کرتا رہے گا۔