سری لنکا میں اتوار کو ایسٹر کی تقریبات کے دوران ہونے والے خود کش حملوں کی تحقیقات جاری ہیں اور حکام اب تک 40 مشتبہ افراد کو حراست میں لے چکے ہیں۔
جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں اس وین کا ڈرائیور بھی شامل ہے جس میں مبینہ طور پر خود کش حملہ آوروں نے سفر کیا تھا۔ پولیس نے اس گھر کے مالک کو بھی حراست میں لے لیا ہے جہاں بعض خود کش حملہ آوروں نے قیام کیا تھا۔
اتوار کی صبح دارالحکومت کولمبو اور اس کے نواح میں تین گرجا گھروں اور تین بڑے ہوٹلوں میں بیک وقت ہونے والے دھماکے اور چند گھنٹوں کے بعد ملک کے دیگر شہروں میں تین مزید دھماکے، گزشتہ 10 سال کے دوران سری لنکا کی تاریخ کے سب سے پرتشدد واقعات تھے۔
دھماکے ایک ایسے وقت ہوئے جب گرجا گھروں میں مسیحیوں کے تہوار ایسٹر کی عبادات جاری تھیں۔
سری لنکن پولیس کا کہنا ہے کہ تمام دھماکے دہشت گردی کے ایک ہی سلسلے کی کڑی تھے جن میں ایک ہی شدت پسند گروہ ملوث ہے۔
ہلاکتوں میں اضافہ
سری لنکن پولیس کے ترجمان راون گنا سیکارا نے کہا ہے کہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 320 تک جا پہنچی ہے جب کہ مزید کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔
دھماکوں میں 500 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
سری لنکا کے وزیرِ سیاحت جان اماراٹنگا نے کہا ہے کہ حملے میں 39 غیر ملکی بھی مارے گئے ہیں۔ لیکن وزارتِ خارجہ نے ہلاک ہونے والے غیر ملکیوں کی تعداد 31 بتائی ہے۔
بھارت اور برطانیہ دونوں نے اپنے آٹھ، آٹھ شہریوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ دھماکوں میں اس کے چار شہری ہلاک ہوئے ہیں جب کہ بہت سے شدید زخمی ہیں۔
ہلاک ہونے والے دیگر غیر ملکیوں کا تعلق بنگلہ دیش، چین، فرانس، جاپان، نیدرلینڈز، ڈنمارک، پرتگال، سعودی عرب، اسپین، ترکی اور آسٹریلیا سے ہے۔
ہنگامی حالت نافذ
دھماکوں کے خلاف منگل کو صدر میتھری پالا سری سینا نے ملک بھر میں یومِ سوگ قرار دیا ہے۔ حملوں کے فوری بعد حکومت نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا تھا جسے پیر کی صبح اٹھا لیا گیا تھا۔
لیکن کرفیو کے خاتمے کے باوجود منگل کو بھی دارالحکومت کولمبو کی بیشتر سڑکیں سنسان ہیں اور شہر میں فوجی دستے گشت کر رہے ہیں۔
صدر کی جانب سے ملک میں نافذ کی جانے والی ہنگامی حالت بھی منگل سے موثر ہو گئی ہے جس کے تحت فوج کو مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے اور اپنی تحویل میں رکھنے کے اختیارات مل گئے ہیں۔
سری لنکا میں 26 سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران فوج کو یہ خصوصی اختیارات حاصل تھے جنہیں خانہ جنگی کے خاتمے پر 2009ء میں واپس لے لیا گیا تھا۔
حکومت نے دھماکوں کے فوری بعد افواہوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ملک بھر میں سوشل میڈیا بند کر دیا تھا جو تاحال بحال نہیں ہوا ہے۔
غیر ملکی اداروں سے مدد طلب
سری لنکن حکام نے دھماکوں کی تحقیقات کے لیے امریکی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' سمیت کئی دیگر غیر ملکی انٹیلی جینس اداروں سے مدد طلب کی ہے۔
ایک روز قبل سری لنکن حکومت کے کئی وزرا نے یہ تسلیم کیا تھا کہ غیر ملکی انٹیلی جینس اداروں نے حکام کو ہفتوں پہلے دہشت گرد حملے کے امکان کے بارے میں خبردار کر دیا تھا۔
انٹیلی جینس اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ ایک مقامی اور غیر معروف شدت پسند تنظیم 'قومی توحید جماعت' کولمبو سمیت سری لنکا کے مختلف مقامات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے لیکن سری لنکن حکام کو بظاہر معاملے کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہو سکا تھا۔
دھماکوں کے بعد حکام نے کہا ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ شدت پسند تنظیم کے ٹھکانے کہاں تھے اور اس کے جنگجو کہاں تربیت حاصل کر رہے تھے۔ لیکن پولیس نے تاحال ان مبینہ خود کش حملہ آوروں کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے جن کی لاشیں جائے واقعہ سے ملی ہیں۔
سری لنکا کے وزیرِ صحت رجیتھا سینا رتنے نے کہا ہے کہ تمام حملہ آور سری لنکن شہری تھے لیکن حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں کسی بین الاقوامی نیٹ ورک کی مدد بھی حاصل تھی۔
دھماکوں کی وجوہات کا بھی تاحال تعین نہیں ہو سکا ہے لیکن کثیر النسلی اور کثیر المذہبی سری لنکن معاشرے میں نسلی اور فرقہ وارانہ کشیدگی موجود ہے۔
دو کروڑ سے زائد آبادی کے ملک سری لنکا میں بودھ مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہے لیکن ملک میں ہندو، مسلمان اور مسیحی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔