بحر ہند میں سری لنکا کے جزیرے کے ساحلی مقامات تفریح کے لیے آنے والے سیاحوں سے بھر ے ہوئے ہیں۔ ہوٹلوں میں جگہ ملنی مشکل ہو رہی ہے اور ہر طرف خوب گہماگہمی ہے ۔ جیٹ ونگ ہوٹلز کے ہیرن کورے کہتے ہیں کہ یہ سری لنکا کے لیے بڑا شاندار وقت ہے۔ ایک طویل فوجی مہم کے بعد گذشتہ مئی میں یہاں تامل چھاپہ ماروں کو فیصلہ کُن شکست ہوئی تھی۔
کورے کہتے ہیں’’اپریل کے آخرتک اس سال کے شروع کے چار مہینوں جیسا شاندار وقت ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ فروری میں تو ہمارے پاس ہماری گنجائش سے زیادہ بزنس تھا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2010 سری لنکا کے ٹورازم کے لیے بہترین سال ہو گا۔‘‘
تامل ٹائیگرز کے سفاک گوریلا گروپ نے برسوں تک تامل اقلیت کے الگ وطن کے لیے جنگ کی ۔ لیکن دہشت گردی اور خود کش بمباریوں کا خوف اب ختم ہو چکا ہے ۔ ملک کے شمالی علاقے کی تعمیرِ نو کی کوششیں جاری ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جو چھاپہ ماروں کا گڑھ تھا اور جنگ سے تباہ ہو چکا ہے ۔ لاکھوں پناہ گزین کیمپوں سے اپنے گاؤں کو واپس جا چکے ہیں۔
ملک کے طاقتور صدرمہندا راجاپاکسے جن کی حکومت نے چھاپہ مارو ں کو شکست دینے کی کامیاب مہم چلائی، انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ پارلیمینٹ پر ان کی پارٹی کی گرفت مضبوط ہے ۔ انھوں نے اقتصادی ترقی اور اکثریتی سنہالی اور اقلیتی تامل آبادی کے درمیان مصالحت کو اپنے اہم مقاصد قرار دیا ہے ۔
تا ہم ملک میں امن و سکون کے باوجود اہم مسائل کے بارے میں تشویش برقرار ہے ۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ملک میں اکثریتی اوراقلیتی آبادیوں کے درمیان کشیدگی اور اختلافات کم نہیں ہوئے ہیں اور انہیں ختم کرنے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی خاص کوشش بھی نہیں کی گئی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ خانہ جنگی شروع ہونے کی جو وجوہات تھیں، جیسے سنہالی اور تامل آبادی کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا مسئلہ ، ان پر مناسب توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔
ناقدین نے حکومت کے بعض متنازع اقدامات کی بھی نشاندہی کی ہے مثلاً حکومت نے تامل ٹائیگرز کے قبرستانوں پر بل ڈوزر چلادیے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ باغیوں کی تمام نشانیوں کو مٹانا چاہتی ہے تا کہ لوگ ماضی کو بھول جائیں۔
لیکن نیشنل پِیس کونسل کے جیہان پریرا کہتے ہیں کہ اس اقدام سے تامل آبادی میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے ۔’’یہ بڑا مشکل اور پیچیدہ سوال ہے کیوں کہ ان قبرستانوں میں جن پر بل ڈوزر چلائے گئے ہیں، تامل آبادی کے بچوں کی قبریں بھی تھیں۔ یہ وہ بچے تھے جنہیں جبری طور پر فوج میں بھرتی کیا گیا تھا۔ جنوب میں اور ملک کے بقیہ حصوں میں رہنے والے تاملوں میں بہت زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے ۔ اس ماحول میں اس قسم کی مفاہمت پیدا ہونا مشکل ہے جس کی اس ملک کو ضرورت ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو برادشت نہیں کرتی۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو دھمکیاں دی ہیں۔ حکومت نے ان الزامات سے انکار کیا ہے ۔ بہت سے لوگوں کی نظر میں، جنرل ساراتھ فونسیکا کی حراست ، جنھوں نے باغیوں کے خلاف فوجوں کی کمانڈ کی تھی، حکومت کی طرف سے اپنے مخالفین کو خوفزدہ کرنے کی ایک مثال ہے۔جنوری کے انتخاب میں جنرل فونسیکا نے صدر کا مقابلہ کیا تھا۔ اب ان کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے کیوں کہ مبینہ طور پر انھوں نے سیاست میں اپنے داخلے کی منصوبہ بندی اس وقت کی تھی جب وہ فوج میں ملازم تھے ۔
جیہان پریرا کہتے ہیں کہ ملک میں غیر یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے اور لوگوں کو حکومت کے اصل رویے کا یقین نہیں ہے ۔’’کسی کو پتہ نہیں ہے کہ حکومت کس حد تک رواداری سے کام لے گی اور کہاں تک اختلاف رائے کو برداشت کرے گی۔اس ملک میں ابھی ایسے حالات پیدا ہونے میں کافی وقت لگے گا کہ تمام لوگ خود کو محفوظ سمجھیں اور انہیں یہ اطمینان ہو کہ ان کے مفادات کی حفاظت کی جا رہی ہے۔‘‘
یہ تشویش اپنی جگہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگ ختم ہونے کے ایک سال بعد بہت سے لوگ قیامِ امن سے مستفید ہو رہے ہیں۔ بازاروں میں چہل پہل ہے اور بڑی تعداد میں لوگ شمال کا سفر کر رہے ہیں۔ عام لو گ پُر امید ہیں کہ حکومت ملک کی تعمیر نو کا وعدہ پورا کر ے گی اور اسے اقتصادی طور پر مضبوط بنائے گی ۔
جیٹ ونگ کے ہیرن کورے لوگوں کے موڈ کی وضاحت کرتے ہیں’’یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ لوگ مستقبل کے بارے میں پُر امید ہیں۔ انہیں خرچ کرنے کی آزادی ہے، سفر کرنے کی آزادی ہے، غرض یہ کہ زندگی کے بارے میں سری لنکا کے لوگوں کا اندازِ فکر بدل گیا ہے۔‘‘
تامل ٹائیگرز کا شمار دنیا کے سفاک ترین گوریلا گروپوں میں ہوتا تھا۔اپنے عروج کے دور میں وہ اس جزیرے کے تقریباً ایک تہائی حصے کو کنٹرول کرتے تھے اور ملک کے شمالی حصے میں ان کی اپنی حکومت قائم تھی۔