رسائی کے لنکس

کشمیر: سماجی ویب سائٹس کے غلط استعمال کے الزام میں گرفتاریاں


فائل
فائل

سرینگر میں پولیس کے ترجمان نے اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہٴ پولیس نے اپنے تیکنیکی اسٹاف کو سماجی ویب سائٹس پر لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے متحرک کر دیا ہے

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے ایسے افراد کے خلاف جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ سائبر اسپیس کا غلط استعمال کر رہے ہیں، کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔

گزشتہ تین دن کے دوران کئی ایسے افراد پر جن پر سماجی ویب سائٹس بالخصوص فیس بُک پر قابلِ اعتراض مواد، تصویریں اور ویڈیوز ’اپ لوڈ‘ کرنے کا الزام عائد کرکے، مقدمات درج کئے گئے ہیں؛ اور اِن میں سے کئی ایک کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔

سرینگر میں پولیس کے ترجمان نے اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہٴ پولیس نے اپنے تیکنیکی اسٹاف کو سماجی ویب سائٹس پر لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے متحرک کر دیا ہے۔

نگرانی کے دوران، بعض افراد جن کے نام واضح وجوہات کی بِنا پر مخفی رکھے گئے ہیں، جن کی شکایات پر پولیس نے چند ایسی پوسٹ اور ویڈیوز پر دھیان گیا جنہیں سماجی ویب سائٹس پر شئیر اور شائع کیا گیا تھا اور ان کا مقصد، بقول ترجمان، ’’بعض پیشہ ور افراد اور سرکاری افسران کو نقصان پہنچانا تھا‘‘۔

چنانچہ، سرینگر کے تین پولیس تھانوں- پانتہ چھوک، زکورہ اور چھانہ پورہ- سے وابسطہ اہلکاروں نے چھاپوں کے دوران ان افراد کو حراست میں لے لیا۔ پولیس نے گرفتار کئے گئے ان ملزموں کو ’'شرپسند'‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے سماجی ویب سائٹس کے ذریعے سرکاری افسروں اور بعض دوسرے افراد کو دھمکیاں دی تھیں‘‘۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ، شیش پال وید نے بتایا کہ ’’شر پسند عناصر اور دوسرے مفاد پرست افراد سائبر اسپیس کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں‘‘، اور اُن کے محکمے نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لے لیا ہے۔ چنانچہ، اس طرح کی سرگرمی میں ملوث افراد کے خلاف ’’سخت ترین کارروائی‘‘ کی جا رہی ہے۔

انہوں نے یہ الزام بھی دہرایا کہ ’’عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوراں پاکستان میں بیٹھے افراد سماجی ویب سائٹس کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو اُکساتے ہیں اور وہ انکاؤنٹرس کے دوران، حفاظتی حصار میں پھنسے عسکریت پسندوں کو مدد فراہم کرنے اور ان کے لئے فرار کی راہ ہموار کرنے کے لئے حفاظتی دستوں پر پتھراؤ کرتے ہیں‘‘۔

اس سے قبل، بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور بھارتی وزیرِ اعظم کے دفتر میں وزیرِ مملکت جتیندر سنگھ نے بھی اسی طرح کے الزام لگائے تھے۔

راجناتھ سنگھ نے نئی دہلی میں پارلیمان کو بتایا تھا کہ ’’اس طرح کے سنگبازوں کو پاکستان کی پشت پناہی کے حامل سرگرم عناصر سے شہہ مل رہی ہے۔" انہوں نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ پاکستان میں موجود گروپ ’انکاؤنٹر‘ کی جگہوں کے آس پاس ہجوموں کو منظم کرنے کے لئے فیس بُک اور سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان نے بھارتی وزیرِ داخلہ کے اس بیان پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ لیکن، سرینگر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے ایک اتحاد نے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیدیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت کشمیر کے زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کی بجائے صوبے میں اسے درپیش ہر مسئلے میں پاکستان کو گھسیٹ کر اقوامِ عالم کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی عہدیداروں اور مقامی پولیس کے بیانات کے پس منظر میں منگل کے روز خود انہی سماجی ویب سائٹس پر یہ بحث چھڑ گئی کہ غالباً حکومت شورش زدہ کشمیر میں سماجی میڈیا کے استعمال پر بعض پابندیاں عائد کرکے اس کے استعمال کو محدود کرنے والی ہے۔ اکثر کی یہ رائے تھی کہ ’’بھارت دراصل کشمیریوں باالخصوص نوجوان نسل کی طرف سے سماجی ویب سائٹس پر سیاسی آراء کے کھلے اظہار سے خائف ہے اور اس پر قدغن لگانا چاہتا ہے‘‘۔

تاہم، اعلیٰ پولیس اور حکومت میں شامل عہدیداروں نے بتایا کہ ان کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ صرف پولیس کے متعلقہ شعبے اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کو سائبر اسپیس کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے متحرک کردیا گیا ہے۔ پولیس سربراہ نے یہ بات دہرائی کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروئی کی جائے گی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG