سری نگر کی تاریخی جامعہ مسجد میں انیس ہفتے بعد بھارتی فوج کا محاصرہ ختم ہونے کے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی کی گئی۔ میر واعظ عمر فاروق کی نظر بندی کی وجہ سے نماز جمعہ کی امامت ایک مقامی امام نے کروائی ۔ مسجد کے گرد کوئی فوجی تعینات نہیں تھے ، اس لئے کئی نمازی مسجد پہنچ کر نمازجمعہ ادا کرنے میں کامیاب رہے ۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مقامی افراد مسجد کے باہر جمع ہو گئے اور کشمیر پر بھارتی قبضے اور وادی کشمیر میں پچھلے چار مہینوں سے جاری مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف مظاہرہ کیا ۔ کچھ مظاہرین نے پاکستان کے پرچم بھی اٹھا رکھے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو بھارتی کشمیر کی صورتحال پر توجہ دینی چاہئے۔ مظاہرے میں شریک ایک نقاب پوش نوجوان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے شہیدوں کا خون ضائع نہیں ہونا چاہئے ۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے اور ربڑ کی گولیاں برسائیں، جن سے کئی مظاہرین کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔
رواں سال جولائی میں ایک علیحدگی پسند کشمیری نوجوان برہان وانی کی سکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو گئے تھے ۔ جس کے بعد سے صورتحال معمول پر نہیں آئی ہے۔ مظاہرین اور سکیورٹی فورسز میں آئے روز ہونے والی جھڑپوں میں ایک اندازے کے مطابق کم از کم نوے افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔