ڈرامہ نویس نے دو مختلف ادوار یعنی جدوجہد آزادی کے دن اور عصر حاضر کے چیلنجز کو اجاگر کرنے کے لیے آج کے حالات پر بھی نظر ڈالی ہے جو مختلف کردار آج کے مسائل پر بات اور جرح کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔
برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم اور اس دور کے اہم سیاست دان ونسٹن چرچل کا کردار بھی اس وقت کے حالات، ان کے بھارتی لوگوں کے بارے میں خیالات اور برطانوی سوچ پر روشنی ڈالتا ہے۔
اس سوال پر کہ جنوبی ایشیا کے اس اہم موضوع پر یہ ڈرامہ تو انگریزی میں تحریر اور اسٹیج کیاجا رہا جب کہ بھارت اور پاکستان کے عوام اسے اپنی زبانوں میں دیکھنا چاہیں گے، اکبر احمد کہتے ہیں کہ ان کی یہ کوشش ہوگی کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعہ اس کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے اور ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ اس کا جنوبی ایشیا کی زبانوں میں ترجمہ کرکے پیش کیا جائے۔
گاندھی کا کردار بھارتی امریکی اداکار سری مراجکر اکر ادار کررہے ہیں جب کہ محمد علی جناح کا کردار پاکستانی امریکی فرحان بھابا کے حصے میں آیا ہے۔
ڈرامے کی ڈائریکٹر اور واشنگٹن ڈی سی کے اسمتھ سونین انسٹی ٹیوٹ کی سابقہ آرٹ ڈائریکٹر منجلا کمار کہتی ہیں کہ اس ڈرامے کو ڈائریکٹ کرتے ہوئے بہت سےپہلو سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا، ایک تو یہ کہ اس ڈرامے کے کردار تاریخ کی اہم ترین شخصیات میں شامل ہیں۔ لہذا ان کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ آج بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہر نسل کو اور خاص طور پر آج کی نسل کو مبہم کر دیے گئے حقائق جاننے کی بہت ضرورت ہے۔"
وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ کس طرح واشنگٹن کے مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے لوگوں پر مشتمل سینکڑوں ناظرین کی اس کی پرفارمنس کے دوران توجہ برقرار رکھی جائے اور اس ڈرامے کا مرکزی خیال بھی بتایا جائے۔
"اس ڈرامے کو واشنگٹن میں اسٹیج کرنے کی بہت اہمیت ہے ۔ کیونکہ میں اسے بھارت، پاکستان اور امریکہ کی ٹرائنگل کے طور پر دیکھتی ہوں۔ اس لیے بھارت اور پاکستان کے مسائل پر واشنگٹن میں گفتگو اور بحث بہت اہم ہے۔"
منجلہ کمار کہتی ہیں کہ ڈرامے میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح، گاندھی کی شریک حیات قسطوربہ گاندھی اور ونسٹن چرچل کی شریک حیات کلیمینٹائن چرچل کے کردار کو بھی غور سے سمجھنا چاہیے کیوں کہ انہوں نے ثابت کیا کہ خواتین اتنے بڑے تاریخی موڑ پر مضبوط کردار ادا کرسکتی ہیں۔
منجلہ کمار کہتی ہیں کہ ڈرامے کی کاسٹ میں کئی مذاہب کے لوگ ہیں جن میں مسلمان، ہندو، عیسائی، سکھ اور یہودی شامل ہیں۔
" بھارتی ہونے کے ناطے میرے لیے یہ تنوع اس بات کو ظاہر کرتا کہ بھارت میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ لیکن آج کل کے منقسم حالات میں اس قسم کی سوچ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ ٘محض اس لیے کہ بھارت اقتصادی ترقی کر رہاہے تو ہمیں اس کی وداس اور راماین جیسی بڑی تہذیبوں کی اقدار چھوڑ دینی چاہیں درست نہیں ہے۔"
ڈاکٹر اکبر احمد نے تاریخی پس منظر اور موجودہ تناظر کو بیان کرنے کے لیے کئی حوالے سے ڈائیلاگ اور سیاسی شخصیات اور ان کے کردار اور کشمیر جیسے مسئلے پر بھی بات کی ہے۔
ڈرامے میں شدید جذباتی ڈائیلاگ بھی شامل ہیں۔ علامہ اقبال کے شعر" سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" کا بھی ذکر ہے جسے ہر بھارتی فخر سے گاتا ہے۔
ڈاکٹر اکبر کہتے ہیں ڈرامے کے دوسرے پہلوؤں کے علاوہ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ شاید امریکی تھیٹر میں پہلی بار محمد علی جناح کی شخصیت کے بہت سے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
"آج کے تناظر میں جب کہ پاکستان کو انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی تنزلی کے باعث دنیا میں تنقید کا سامنا ہے، اس کے بانی کی قائدانہ صلاحیتوں کو بیان کرنا ملک کے لیے ایک مثبت بات ہے۔ "