سانحہ مشرقی پاکستان کو گزرے آج 39 سال ہوگئے۔گو کہ پاکستان 14 اگست 1947ء کو وجود میں آیا تھا لیکن اسے وجود میں آئے ہوئے ابھی چوبیس سال چار ماہ اور دو دن ہی گزرے تھے کہ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت ہوگیا۔ اس کے پس پشت عوامل خواہ کچھ بھی رہے ہوں نئی نسل اس واقعے کا ذمے دار اپنوں کی عاقبت نااندیشی اور اغیار کی کامیاب حکمت عملی کو قرار دیتی ہے۔
جغرافیائی طور پر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دو بالکل الگ ا لگ علاقے تھے اور ان کے درمیان کئی ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ مشرقی پاکستان ساحلی علاقہ تھا جہاں ہر سال طوفان سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیل جاتی تھی اور چونکہ اس وقت مغربی پاکستان ہی دونوں حصوں کے انتظامات چلانے کا مجاز تھا لہذا طوفان سے تباہی کو روکنے یا اس کے خلاف بند باندھنے اور امدادی کاموں کے لئے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی جانب دیکھنا پڑتا تھا ۔ فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے جتنی دیر میں مغربی پاکستان کی امداد مشرقی پاکستان پہنچتی وہاں تباہی مچ جاتی تھی۔ پھر بنگالیوں کو مغربی پاکستان سے یہ بھی گلہ تھا کہ وہ طوفان اور دوسری آسمانی آفات کا مقابلہ کرنے کے باوجود مشرقی پاکستان کے وسائل سے آمدنی حاصل کرلیتا ہے جبکہ اسے قومی سطحوں کے منصوبوں سے بھی دور رکھا جاتا ہے۔
شیخ مجیب الرحمن بنگالیوں کے نمائندہ رہنما تھے مگر انہیں دشمن اور غدارقرار دیا گیا ۔ اس اقدام نے بھی بنگالیوں کی نفرت میں اضافہ کیا۔ اس نفرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقائی قوتوں نے بنگالیوں کے ذہنوں میں مغربی پاکستان کے لئے نہ صرف نفرت کے بیج بو دیئے بلکہ بنگالیوں کو اسلحہ بھی فراہم کیا اور اپنی فوجیں بھی مکتی باہنی کے روپ میں مشرقی پاکستان میں اتار دیں۔ مکتی باہنی نے خاندان کے خاندان قتل کردیئے ۔ ایک طویل عرصے تک جنگ جاری رہی اور نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔
اس دوران جو بہاری مسلمان مکتی باہنی کے خلاف لڑرہے تھے اور پاکستان آنا چاہتے تھے انہوں نے بنگلہ دیش کی شہریت قبول نہیں کی اور پاکستان آمد کے انتظار میں ہونے والی جدوجہد میں اپنے گھر بار بھی گنوادیئے اور عارضی طور پر منتقلی کے خیال سے کیمپوں میں گزر بسر کرنے لگے۔ انہیں انتظار تھا کہ جلد سے جلد حالات بہتر ہوں گے اور انہیں پاکستان بلالیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اگرچہ اس واقعے کو کئی عشرے گزر چکے ہیں مگر پاکستان سے محبت کرنے والے مسلمانوں کے سینکڑوں خاندان آج بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ انہیں پاکستان سے محبت کی سزا دی جارہی ہے۔ بنگلہ دیش انہیں اپنا شہری ماننے کو آمادہ نہیں جبکہ پاکستان انہیں بلانے میں اب تک سنجیدہ نہیں ہے یوں کیمپوں میں رہنے والے افراد کو کسمپرسی کی زندگی گزارنا پڑ رہی ہے۔
ہر سال جب بھی 16دسمبر آتا ہے، بنگلہ دیش کے کیمپوں میں رہنے والے لوگوں کی وفاداریوں کا قصہ بیان ہوتا ہے لیکن انہیں بلانے پر کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں سوچتا۔ اس کے باوجود آج بھی سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان میں نظریہ پاکستان سے دلی وابستگی کے حامل کروڑوں عوام اور ان کی نئی نسل اسی جوش و جذبہ سے دونوں خطوں میں سرگرم ہیں کہ جغرافیائی تقسیم کے باوجود کوئی ایسا فارمولا وجود میں آ جائے جس کے ذریعہ دونوں خطوں کے مسلمانوں کو ایک بار پھر قریب سے قریب تر لایا جائے اور جغرافیائی لحاظ سے الگ تھلگ ہونے کا احساس دونوں خطوں کے مسلمانوں سے ختم کرایا جا سکے۔ لیکن ایسا کب ہوگا، ہوگا بھی یا نہیں اس کی کسی کے پاس کوئی گارنٹی نہیں۔
محصورین کے مسئلے پر پاکستان کی حکومتوں کا موقف بدلتا رہتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ انہیں بہت جلد پاکستان لایا جائے گا۔ مگر وہ بہت جلد کبھی نہیں آتا۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ محصورین صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ۔ان لوگوں کا سارا بوجھ آخر پاکستان ہی کیوں اٹھائے سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک انہیں اپنے ہاں کیوں آباد نہیں کرتے؟ یہ بھی کہا گیا کہ ان لوگوں کو بنگلہ دیش کی شہریت لے لینی چاہئے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے خاندان بنگلہ دیش کے شہری ہوگئے ہیں جبکہ ان کی ایک بڑی تعداد دوسرے ملکوں میں بھی جابسی ہے مگر اب بھی بے شمار محصورین پاکستان آنے کے آسرے میں زندہ ہیں۔ گو کہ اس دوران ان کی ایک نسل پیدا ہوکر پڑھ لکھ بھی گئی ہے مگر یہ لوگ اب بھی انتظار کی سولی پر چڑھے ہوئے ہیں۔