امریکہ کے محکمہ خارجہ نے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل ڈیموکریٹ ہلری کلنٹن کی 7,000 صفحات پر مشتمل مزید ای میلز جاری کی ہیں جو انہوں نے اس وقت بھیجی اور وصول کی تھیں جب وہ بطور وزیر خارجہ کام کر رہی تھیں۔
ہلری کلنٹن کی طرف سے اپنے سرکاری اکاؤنٹ کی بجائے ذاتی ای میل اکاؤنٹ استعمال کرنے کی وجہ سے بظاہر ان کے صدارتی امیدوار بننے کی مہم کو دھچکا لگا ہے۔
ہلری کسی طرح کی بھی حساس ای میل کو اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے بھیجنے کی تردید کرتی ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ وہ اس سارے معاملے کے بارے میں دیانت داری برت رہی ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے پیر کو کہا کہ انٹیلی جنس کمیونٹی کے انسپکڑ جنرل کے معائنے کے بعد ہلری کی تقریباً 150 ای میلز کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ ٹونر کا مزید کہنا ہے کہ اب تک یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہلری نے جب یہ ای میلز بھیجی یا وصول کی تھیں تو ان میں کسی بھی ای میل کو حساس یا مکمل خفیہ قرار نہیں دیا گیا تھا۔
وزارت خارجہ یہ کہہ چکی ہے کہ ای میل کو بھیجے جانے کے بعد ان کو سابقہ تاریخوں میں حساس قرار دینا ایک معمول کا عمل ہے۔
ہلری کلنٹن نے وزارت خارجہ کو اجازت دی تھی کہ وہ ان کے ذاتی ای میل اکاؤنٹ کی 55,000 صفحات پر مشتمل ای میلز کو سامنے لا سکتا ہے۔ وہ اس بات سے انکاری ہیں کہ انہوں نے کوئی غلط کام کیا اور ان کا کہنا ہے کہ جب وہ وزیر خارجہ تھیں تو ان کے لیے ایک ای میل اکاؤنٹ اور ایک فون کو استعمال کرنے میں سہولت تھی۔
ہلری کلنٹن اس سے قبل اس سال یہ کہہ چکی ہیں کہ "ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ زیادہ مناسب تھا کہ اگر میں نے دوسرے ای میل اکاونٹ اور دوسرے فون کو استعمال کیا ہوتا۔ تاہم اس وقت یہ کوئی مسئلہ معلوم نہیں ہوتا تھا"۔
ان کے نقاد ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ سرکاری ای میل اکاونٹ کا استعمال نہ کر کے انہوں نے اپنی ای میلز کو ہیکرز اور غیر ملکی ایجنٹوں (کی ان تک رسائی) کے لیے کھلا چھوڑ دیا تھا۔ وہ ان پر متنازع ابلاغ کو چھپانے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں جن میں 2012ء میں لیبیا میں بن غازی میں واقع امریکی قونصل خانے پر ہوئے مہلک حملے کا معاملہ بھی شامل ہے۔