رسائی کے لنکس

دہشت گردی کی سالانہ رپورٹ: داعش اور ایران بدستور خطرہ


داعش اور عراقی فورسز کے درمیان موصل میں لڑائی کے بعد تباہی کا منظر۔ جولائی 2017
داعش اور عراقی فورسز کے درمیان موصل میں لڑائی کے بعد تباہی کا منظر۔ جولائی 2017

بدھ کے روز جاری ہونے والی امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے عالمی دہشت گردی پر جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر 2015 کے مقابلے میں 2016 میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 9 فی صد کمی ہوئی جب کہ ان سے منسلک ہلاکتوں کی تعداد 13 فی صد تک گر گئی۔

پچھلے سال دہشت گرد حملوں اور دہشت گردی سے منسلک ہلاکتوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے جس کا ایک سبب دہشت گرد گروپ داعش طاقت میں کمی اور ایران کی ریاستی سرپرستی کے نیٹ ورک میں کام کرنے والے گروپس کی صلاحیتوں میں تخفيف ہے۔

بدھ کے روز جاری ہونے والی امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے عالمی دہشت گردی پر جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سن 2015 کے مقابلے میں سن 2016 میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 9 فی صد کمی ہوئی جب کہ ان سے منسلک ہلاکتوں کی تعداد 13 فی صد تک گر گئی۔

لیکن امریکی عہدے داروں نے خبردار کیا کہ داعش 2016 میں بھی بدستور عالمی سطح پر سب سے زیادہ صلاحیت رکھنے والا دہشت گرد گروپ رہا اور سن 2015 کے مقابلے میں اس نے عراق میں 20 فی صد زیادہ حملے کیے۔

امریکی عہدے داروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہشت گرد گروپ داعش لیبیا، صومالیہ، یمن، شمال مشرقی نائیجریا کے ان علاقوں میں اپنے کارندوں کے ذریعے مفاد اٹھاتا رہا جہاں حکومت کا کنڑول نہیں ہے اور وہ مصر کے کچھ حصوں، جزیرہ نما سینائی اور أفغانستان پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی متحرک رہا۔

محکمہ خارجہ کے دہشت گردی أمور سے متعلق عہدے دار جسٹن سائبریل کا کہنا ہے کہ 2016 میں کسی بھی دوسرے دہشت گرد گروپ کے مقابلے میں حملوں اور ہلاکتوں کی زیادہ ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ پر عائد ہوتی ہے۔

اس گروپ کی جانب سے 2016 میں عراق اور شام میں اپنے زیر قبضہ علاقوں سے باہر نکل کر حملوں میں اضافہ اس کی دہشت گردی کی مہم کا اہم حصہ تھا۔

سٹیٹ ڈیارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلک علاقائی گروپوں نے افریقہ اور مشرق وسطی میں حکومتی عمل دخل میں کمی کی وجہ سے فائدہ اٹھایا ہے، اور یہ تنظیم آج بھی دنیا بھر میں ایک بڑا خطرہ ہے۔

رپورٹ میں ایران کی جانب سے، عراق اور لبنان میں حزب اللہ جیسے شیعہ دہشت گرد گروپوں کے لئے حمایت پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جن کے بارے میں دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کا نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور یہ بہت ہی مہارت سے کام کرنے والے گروپ ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں بھاری جانی نقصان اٹھانے کے باوجود، ایران کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے کارکن اور جنگجو شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کو تقویت دینے کے سرگرم رہے ہیں۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ کے دہشت گردی سے متعلق شعبے نے کہا ہے کہ پچھلے سال 11 ہزار سے زیادہ دہشت گرد حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 25 ہزار 600 ہلاکتیں ہوئیں۔

ایک سو سے زیادہ ملک دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنے لیکن زیادہ حملوں کا ہدف دنیا کے پانچ ملک رہے جن میں عراق، أفغانستان، بھارت، پاکستان اور فلپائن شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG