رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں سرکاری عمارتوں سے ریاستی پرچم ہٹا لیا گیا


Kashmir flag
Kashmir flag

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ریاستی جھنڈے کو سرینگر کے سول سیکرٹیریٹ اور دوسری سرکاری عمارات سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ جموں و کشمیر کو آئینِ ہند کی دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور متنازعہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وفاق کے زیرِ انتظام علاقے بنانے کے نئی دہلی کے اقدام کے تین ہفتے بعد کیا گیا ہے۔

سرینگر کے ستھرا شاہی علاقے کے باشندوں نے بتایا کہ وہ اتوار کی صبح نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے قریب واقع سول سیکرٹیریٹ کی عمارت کی چھت پر بھارت کے قومی پرچم کے ساتھ لہرا رہے ریاستی پرچم کو غائب پایا۔ ایک شہری شمس الدین نے بتایا "یہ ایک اور بُرا دن ہے ہمارے لیے۔ یہ جھنڈا ہماری شناخت کی علامتوں میں سے ایک علامت تھا۔ اسے بھی ہم سے چھین لیا گیا ہے"۔

سول سیکرٹیریٹ میں ریاستی حکومت کے اہم دفاتر واقع ہیں جو مئی سے اکتوبر تک گرمائی صدر مقام سرینگر میں اور سال کے باقی چھہ ماہ سرمائی دارالحکومت جموں میں کام کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ریاستی پرچم کو دوسری سرکاری عمارات اور باقی جگہوں سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

جموں و کشمیر کے ریاستی پرچم کی زمین کا رنگ سرخ ہے جو محنت کش افراد کی نمائندگی کرتا ہے۔ پرچم پر موجود ہل کا نشان زراعت اور تین سفید لکیریں ریاست کے تین خطوں وادئ کشمیر، جموں اور لداخ کی نمائندگی کرتی ہیں۔

اس پرچم کو ریاست کی قدیم ترین سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے 11 جولائی 1939 کو اختیار کیا تھا۔ اسے 7 جون 1952 کو ریاستی آئین ساز اسمبلی میں پاس کی گئی ایک قرارداد کے تحت باضابطہ طور پر ریاست کا پرچم بنایا گیا تھا۔

1952 میں بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور ریاست کے اُس وقت کے وزیرِ اعظم شیخ محمد عبداللہ کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے میں جو 'دہلی اگریمنٹ' کہلایا، کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے پرچم کو ریاست میں وہی حیثیت حاصل ہو گی جو بھارت کے قومی پرچم کو ملک کے دوسرے حصوں میں حاصل ہے۔

جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ 144 کے تحت ریاست میں بھارت کے قومی پرچم کے ساتھ ریاستی پرچم کو لہرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم مارچ 2015 میں ریاست کی مخلوط حکومت میں شامل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزراء نے ریاست کے پرچم کو بھارت کے قومی پرچم کے ساتھ اپنی سرکاری گاڑیوں پر لہرانے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے نزدیک صرف بھارت کا قومی پرچم ہی اس احترام کے لائق ہے-

چنانچہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے سرپرست مفتی محمد سعید کی سربراہی میں کام کرنے والی پی ڈی پی ۔ بی جے پی مخلوط حکومت نے 12 مارچ 2015 کو ایک حکم نامہ جاری کر کے بھارت کے قومی پرچم کے ساتھ ریاست کے جھنڈے کو لہرانا لازمی قرار دیدیا۔ ریاست کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ اس حکمنامے میں کہا گیا تھا، "ریاست کے جھنڈے اور بھارت کے قومی پرچم کو ایک جیسی قدر و منزلت اور حیثیت حاصل ہے"۔ تاہم بی جے پی کے وزراء کی شدید مخالفت کے بعد اس حکمنامے کو صرف بارہ گھنٹے کے بعد واپس لیا گیا۔

اسی سال 26 دسمبر کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی عدالتِ عالیہ نے تمام سرکاری عمارات اور آئینی عہدیداروں کی سرکاری گاڑیوں پر بھارت کے قومی پرچم کے ساتھ ریاست کے پرچم کو لہرانے کے احکامات صادر کر دیے۔ ایک سابق پولیس افسر اور بی جے پی کے لیڈر فاروق خان نے عدالت کے ایک رکنی جج حسنین مسعودی کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ کے ایک ڈویژنل بینچ کے سامنے چیلنج کیا۔ فاروق خان اس وقت بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کے مشیر ہیں۔

جسٹس بنسی لال اور جسٹس تاشی ربستان پر مشتمل عدالتِ عالیہ کے ڈویژنل بنچ نے جسٹس مسعودی کے فیصلے کو التواء میں رکھا تھا۔

جسٹس مسعودی نے جو اس وقت بھارتی پارلیمان کے ایوانِ زیرین لوک سبھا کے رکن ہیں ریاستی حکومت کے 12 مارچ 2015 کے آرڈر کو بحال کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا "یہ ماضی کو حال اور مستقبل کے ساتھ ملاتا ہے۔ یہ پرچم ہمیں لوگوں کی جدوجہد اور ان کی طرف سے دی گئی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے اور ہمیں ہماری امنگوں سے بھی باخبر کرتا ہے"۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG