نیویارک کے علاقے ایسٹ ویلج میں واقع ’دی اسٹینڈ بک اسٹور‘ نامی یہ دکان نیویارک یونیورسٹی کی بڑی بڑی عمارتوں کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ اس دکان کو نیویارک کے قدیم ثقافتی ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ اس کی پہچان دکان کے باہر لگی وہ میزیں بھی ہیں جہاں ایک ڈالر کی کتابیں موجود ہوتی ہیں۔ اس دوکان کی منیجر ننسی باس وائیڈن ہیں ، جن کے دادا بنجمن باس نے یہ دوکان 84 سال پہلے شروع کی تھی۔
نینسی اور ان کے والدفریڈ باس تسلیم کرتے ہیں کہ دکان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ اس کا نیویارک میں ہونا ہے۔
نینسی امریکی سینیٹر ران وائیڈن کی اہلیہ ہیں۔ انہوں نے اس سٹور پر زمانہ ِ طالب علمی کے دوران کام کرنا شروع کیا۔ ان کے والد فریڈ جن کی عمر اب 86 سال ہے اس سٹور پر تب سے کام کر رہے ہیں جب وہ تیرہ برس کے تھے۔
گو کہ امریکہ میں کتابوں کی دکان کی ایک بڑی چین ’بارڈرز‘نے حال ہی میں اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا ہے اور وہ امریکہ میں اپنے کئی سٹورز بند کر رہا ہے ،فریڈ کہتے ہیں کہ نامساعد کاروباری حالات کےباوجودان کے اسٹور ’اسٹنڈرڈز‘ کے کاروبار میں وسعت کی وجوہات مختلف ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ ہماری کتابوں کی قیمتیں اطمینان بخش ہیں۔ ہم نئی شائع شدہ کتب کی فراہمی یقینی بناتے ہیں۔ ہمارے پاس کتب کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے جو کہیں اور نہیں ملے گا۔ ہماری عمارت کی پانچ منزلیں ہیں جس میں کتابیں ہی کتابیں ہیں۔ ہمارے پاس ہر وقت کتابیں آتی رہتی ہیں۔
استعمال شدہ کتابوں کے علاوہ اس دکان پر کتابوں کا ایک ایسا نایاب ذخیرہ بھی موجود ہے جو بہت سی لائبریریز کے پاس بھی موجود نہیں۔
ای بکس یا برقی کتابوں کے آنے کے بعد سے کتابوں کے روایتی کاروبار کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2008ءکے بعد سے اب تک برقی کتابوں کی شرح ِ فروخت میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔
گو کہ پچھلے کچھ عرصے سے روایتی کتابوں کا کاروبار منافع بخش نہیں رہا ، اس کے باوجود کتابوں کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کتابوں کے کاروبار کے حوالے سے کیے گئے ایک جائزے کے مطابق 2010ءمیں امریکہ میں28 ارب ڈالر زکی کتب فروخت ہوئیں۔ اور گذشتہ دو برسوں میں کتابوں کی فروخت کی شرح میں 5.6 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔