سعودی عرب کے فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے حج کے انتظامات کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم بھی دیا ہے جب کہ وزیر صحت کا کہنا ہے کہ منیٰ میں بھگدڑ کا واقعہ بظاہر حجاج کی طرف سے ان ہدایات پر عمل نہ کرنے کے باعث پیش آیا جو حکام نے جمرات میں مناسک حج کے لیے وضع کی تھیں۔
جمعہ کو وزارت صحت کی ویب سائیٹ پر جاری بیان میں وزیر خالد الفالح کا کہنا تھا کہ واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
جمعرات کو منیٰ میں حجاج حج کے ایک رکن ’رمی جمرات‘ میں مصروف تھے جسے عام لفظوں میں ’’شیطان کو کنکریاں‘‘ مارنا بھی کہتے ہیں، کہ یہاں بھگدڑ مچ گئی جس سے کم ازکم 717 افراد ہلاک اور 863 زخمی ہوگئے۔
حج کے موقع پر گزشتہ 25 سالوں میں پیش آنے والا یہ ہلاکت خیز واقعہ ہے۔ حج کے موقع پر سب سے ہلاکت خیز واقعہ 1990ء میں پیش آیا تھا جب منیٰ ہی میں بھگدڑ مچنے سے 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ایسے ہی واقعات 1994، 2004 اور 2006 میں بھی پیش آئے جن میں ہر ایک میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اس سال دنیا بھر سے تقریباً بیس لاکھ سے زائد مسلمان حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں ہیں۔
بھگڈر مچ جانے سے مرنے والوں میں الجزائر سے تعلق رکھنے والے حاجیوں کی کثیر تعداد کے علاوہ ایران کے 131 شہری بھی شامل ہیں جب کہ سات پاکستانیوں کی ہلاکت کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔ ایک درجن سے زائد بھارتی حاجی بھی اس میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس واقعے پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ مبینہ طور پر حکام نے مناسب حفاظتی انتظامات نہیں کیے تھے۔
دو ہفتوں کے دوران سعودی عرب میں یہ دوسرا ہلاکت خیز واقعہ تھا۔
12 ستمبر کو مناسک حج شروع ہونے سے پہلے مکہ میں مسجد الحرام میں کم ازکم ایک سو سے زائد افراد اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب مسجد کے توسیعی کام کے لیے وہاں کھڑی ایک کرین اچانک زمین پر آگری۔ کرین گرنے کے واقعے میں بھی متعدد پاکستانی ہلاک و زخمی ہو گئے تھے۔