اگر کوئی یہ کہے کہ سورج اپنے مقررہ وقت سے کئی گھنٹے پہلے طلوع ہوسکتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ آپ اسے انہونی قرار دیتے ہوئے اس کی ذہنی حالت پر شک کریں۔ لیکن اس نئے سال کے آغاز پر یہ انہونی بھی ہوچکی ہے۔
قطبی دائرے میں واقع گرین لینڈ میں اس سال سورج اپنے معمول کی تاریخ 13 جنوری سے پوری 48 گھنٹے پہلے 11 جنوری کو طلوع ہوا ، جس سے وہاں بسنے والے باشندے حیرت اور خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔
قطبی دائرے کے دن اور رات طویل ہوتے ہیں۔ ہرسال وہاں کی طویل رات 13 جنوری کو ختم ہوتی ہے اور پھر مہینوں تک سورج غروب نہیں ہوتا۔تاہم وہاں زندگی کے معمولات گھڑی دیکھ کرچلتے رہتے ہیں۔
گرین لینڈ کا بڑا حصہ منجمد سمندر اور ہزاروں سال قدیم بڑے بڑے برفانی تودوں پر مشمل ہے ۔ ان میں سے اکثر گلیشیئرز کی لمبائی اور چوڑائی میلوں میں ہے۔ وہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بہت نیچے رہتاہے۔ پینگوئن اور برفانی ریچھ وہاں کے مشہور جانور ہیں ۔ تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عالمی تپش میں مسلسل اضافے کی وجہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور پینگوئن اور برفانی ریچھ کی نسل کے مٹنے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔
گرین لینڈ کی آبادی بہت کم ہے۔ وہاں کا ا تیسرا بڑا شہر الولسات(Ilulissat) ہے جس کی آبادی ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ قصبہ قطبی دائرے کے مغرب میں تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں ایک ایئرپورٹ بھی ہے جو بیرونی دنیا سے رابطے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
گرین لینڈ کا علاقہ طویل عرصے سے سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہاں کئی سائنسی ٹیمیں اور لیبارٹریاں کام کررہی ہیں۔
الولسات کے شہری 11 جنوری کو معمول سے دو روز پہلے افق سے سورج طلوع ہوتا دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس سے پہلے انہوں نے ایسا کبھی دیکھا تھا اور نہ اپنے بزرگوں سے ایسا کوئی واقعہ سنا تھا۔
اس غیر معمولی واقعہ کی خبریں برطانوی اور یورپی میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں۔سائنس دان اس خبر کی مختلف توجیہات پیش کررہے ہیں۔ کچھ اس کا سبب گردش کرتے وقت زمین کے زاویے میں ممکنہ تبدیلی قرار دیتے ہیں۔ جب کہ ماہرین کے ایک گروپ کا کہناہے کہ حقیقتا یہ نظر کے دھوکے کاواقعہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عالمی تپش میں اضافے کے نتیجے میں قطبی دائرے میں ہونے والی تبدیلیوں نے شفق پر بھی اثر ڈالا ہے۔ آب وہوا کی تبدیلی سورج کے طلوع اور غروب ہوتے وقت آسمان پر دکھائی دینے والے شفق کے رنگوں کو متاثر کرتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طورپر وہ شفق میں پیدا ہونے والی تبدیلی تھی جس کی چکا چوند پر لوگوں کو سورج طلوع ہونے کا گمان ہوا۔ مگر گرین لینڈ کے لوگ یہ توجیہہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد 23.5 ڈگری پر اپنے مدار میں گردش کرتی ہے جس سے دن اور رات اور موسم پیدا ہوتے ہیں۔ قطبی دائرہ ، شمالی قطب سے 66 ڈگری پر واقع ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ علاقہ سردیوں میں سورج سے اوجھل رہتا ہے اور وہاں دنیا کی طویل ترین رات ہوتی ہے۔
قطبی دائرے سے آپ جیسے جیسے قطب کے قریب بڑھتے ہیں، سردیوں کی راتیں طول تر ہوتی جاتی ہیں۔ الولسات کا قصہ قطب سے صرف تین ڈگری پر واقع ہے، اس لیے وہاں دنیا کی طویل ترین رات ہوتی ہے اور وہاں کے باسی نصف سردیاں سورج کی روشنی کے بغیر گذارتے ہیں۔
الاسکا یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر جان ویلش کہتے ہیں کہ سورج کا اپنے مقررہ وقت سے پہلے طلوع ہونا محض نظر کا دھوکہ ہے۔ کیونکہ زمین کی گردش میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
وہ کہتے ہیں زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ سورج نہیں تھا بلکہ شفق پر ابھرنے والااس کا عکس تھا جو دو روز پہلے دکھائی دیناشروع ہوگیا تھا۔تاہم الولسات کے باسی یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے اور وہ یہ انتظار کررہے ہیں کہ اگلے سال سورج اپنے معمول کے مطابق 13 جنوری کو طلوع ہوتا ہے یا اس سے دو روز پہلے۔