عراق کے اہم شہر رمادی کے وسیع حصے سے فورسز کی طرف سے شدت پسند گروپ داش کو بے دخل کیے جانے کے بعد حکام کا کہنا ہے کہ اب سنی قبائلی جنگجو یہاں کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے فورسز کی معاونت کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے عراق فورسز نے امریکی زیر قیادت اتحاد کی فضائی کارروائی کی مدد سے داعش کو شہر سے نکال باہر کرنے میں کامیابیاں حاصل کی تھیں لیکن اب بھی چند ایک علاقوں میں فورسز کو شدت پسندوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
فورسز نے یہاں مرکزی سرکاری عمارت کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور منگل کو وزیراعظم حیدرالعبادی نے یہاں کا دورہ کیا۔
امریکی اتحاد کے ایک ترجمان کرنل اسٹیو وارن نے بتایا کہ اب یہاں داعش کے جنگجوں کی تعداد ایک ہزار سے کم ہو کر 150 سے 250 کے درمیان رہ گئی ہے۔ ان کے بقول گزشتہ چھ ماہ کے دوران رمادی میں 600 سے زائد فضائی حملے کیے گئے۔
امریکی اور عراقی حکام کا کہنا ہے کہ سنی قبائلی جنگجوؤں نے رمادی کا کنٹرول حاصل کرنے میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا لیکن بدھ کو یہ لوگ واگزار کروائے گئے علاقوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔
ان قبائل نے 2006ء اور 2007ء میں اس خطے میں القاعدہ کے خلاف امریکی کامیابیوں میں بھی اہم کردار ادا کیا اور باور کیا جاتا ہے کہ داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ان مقامی جنگجوؤں کو دوبارہ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم العبادی نے عزم ظاہر کیا ہے کہ اب اگلا ہدف عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کا قبضہ حاصل کرنا ہے اور وہاں بھی سنیوں کی اکثریت ہے۔
داعش نے یہاں جون 2014ء سے قبضہ کر رکھا ہے اور یہیں سے انھوں نے اپنے تسلط کو مغربی عراق اور شام کے مشرقی علاقوں تک بڑھایا۔
موصل کے شمال اور مشرق میں کرد فورسز نے داعش کے خلاف کامیابی حاصل کی ہیں لیکن وہ اپنے علاقوں سے باہر کارروائیاں کرنے میں محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
عراق کے وزیر خزانہ ہوشیار زیباری موصل کا قبضہ واگزار کروانے کے لیے کردوں سے معاونت حاصل کرنے کی ضرورت کا اظہار کر چکے ہیں۔
انھوں نے خبر رساں ایجنسی "روئٹرز" کو بتایا کہ پیش مرگہ جنگجو "اہم قوت" ہیں اور اس جنگ میں ان کی بہت ضرورت ہے۔
ان کے بقول اس شہر کو محفوظ بنانے کے لیے اس کے گرد و نواح میں سنی جنگجوؤں اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کی ضرورت ہوگی۔