سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب حکومت کو اس کی تعمیر جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعے کو کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے کیا تاہم منصوبے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ حکومت کو کچھ شرائط کا بھی پابند کیا گیا ہے۔
کیس کی سماعت کرنے والے عدالتِ عظمیٰ کے بینچ میں شیخ عظمت سعید، مقبول باقر، اعجازالاحسن اور مظہر عالم خان میاں خیل شامل تھے جن میں سے جسٹس مقبول باقر نے فیصلے میں اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل کی سماعت کے بعد 17 اپریل کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
گزشتہ برس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں پنجاب حکومت کو اورنج لائن کا ٹریک 11 تاریخی مقامات سے 200 فٹ دور رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ قومی ورثے یا تاریخی عمارتوں کے قریب تعمیراتی منصوبہ نہیں بنایا جاسکتا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومتِ پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ لاہور میٹرو ٹرین منصوبے کو جاری رکھے اور اس منصوبے کو اپنے مقررہ وقت پر پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں 11 تاریخی مقامات کی حفاظت و نقصان کے ازالے کے لیے 30 دن کے اندر دو کمیٹیاں قائم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
فیصلے میں پنجاب یونیورسٹی کے جیالوجی ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین کو ایک کمیٹی کا سربراہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے جس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان کے نامزد کردہ ایک ریٹائرڈ جج بھی اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔
فیصلے کے مطابق دوسری کمیٹی تیکنیکی پہلو اور فنڈنگ کے حوالے سے قائم کی جائے گی اور اس مقصد کے لیے 10 کروڑ روپے کے فنڈ جاری کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے تاکہ اورنج لائن منصوبے کے باعث تاریخی مقامات کو پہنچنے والے نقصانات کے فوری ازالے کے لیے ان کی تزئین و آرائش کرکے اصل حالت میں بحال کیا جاسکے۔
لگ بھگ ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے تعمیراتی کام کے باعث لاہور کے متعدد تاریخی مقامات بشمول شالامار باغ، گلابی باغ گیٹ وے، بدھو کا مقبرہ، چوبرجی، اور زیب النساء کے مقبرے کو خطرات لاحق ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا بیشتر تعمیراتی کام مکمل کیا جاچکا ہے۔