سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں 10 سالہ بچی امل کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے جسٹس ریٹائرڈ خلجی عارف حسین کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
کمیٹی امل کی ہلاکت کے معاملے میں نجی اسپتال اور پولیس کے کردار کی تحقیقات کرکے پولیس اور اسپتالوں کے نظام میں اصلاحات تجویز کرے گی۔
گزشتہ سماعت پر قائم کی گئی تفتیشی کمیٹی نے اپنی سفارشات سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہیں جب کہ سندھ حکومت کے وکیل نے عدالت سے دو سے تین ہفتے کی مہلت طلب کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں 10 سالہ امل کی ہلاکت کے از خود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران نجی اسپتال انتظامیہ نے امل کے والدین کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اسپتال میں بچی کا علاج ہو رہا تھا لیکن والدین خود ہی بچی کو دوسرے اسپتال لے جانا چاہتے تھے۔
بچی کے والدین نے اسپتال انتظامیہ کی رپورٹ کوجھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔
امل کے والد نے عدالت کو بتایا کہ اسپتال انتظامیہ ہمیں بچی کو دوسرے اسپتال لے جانے کا کہہ رہی تھی۔ ہم نے اسپتال انتظامیہ سے کہا کہ اپنا عملہ اور مصنوعی تنفس کا سامان بھی ساتھ دیں۔ لیکن اسپتال انتظامیہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
امل کے والد نے عدالت کو بتایا کہ اسپتال حکام نے کہا کہ اگر مصنوعی تنفس کا سامان آپ کو دے دیں گے تو ایمرجنسی میں کیا کریں گے؟
سپریم کورٹ نے عدالتِ عظمیٰ کے سابق خلجی عارف حسین کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔ کمیٹی میں سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، ڈسٹرکٹ بار کا نمائندہ اور ایک ڈاکٹر بھی شامل ہوں گے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ حکومت شعبۂ صحت کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔ صحت کے لیے مختص بجٹ میں خرد برد ہوجاتی ہے۔ کسی حکومت پر الزام نہیں لگا رہے۔ حقائق بیان کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے ڈاکٹر بھائی نے مجھے فون کر کے پیسوں کا تقاضا کیا اور بتایا کہ وہ مریضوں کے لیے چندہ اکھٹا کر کے ادویات لاتے ہیں۔ پچیس لاکھ روپے کے چندے سے اسپتال کی مشینری ٹھیک کرائی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں کسی ایک حکومت کی بات نہیں کرتا، لیکن آج تک اسپتالوں کی حالتِ زار ایسی ہی ہے۔ کمیٹی کی سفارشات کے بعد اسپتالوں اور پولیس میں اصلاحات کے لیے ضروری احکامات جاری کریں گے۔
کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں بعد ہوگی۔
سماعت کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امل کے والدین نے کہا کہ پولیس نے اپنی غلطی قبول کی لیکن اسپتال والوں نے غلطی نہیں مانی۔ انہوں نے تمام الزامات ہم پر لگا دیے۔ وہ مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔
بچی کے والدین نے کہا کہ عدالت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی خود مختار ہے اور ہم مطمئن ہیں۔ دیگر غیر سرکاری اسپتال ٹھیک ہو جائیں تو ہم سمجھیں گے کہ ہمیں انصاف مل گیا۔
امل گزشتہ ماہ کراچی کے علاقے ڈیفنس کے نزدیک ایک ڈکیتی کے دوران مبینہ طور پر پولیس کی گولی سے ہلاک ہوئی تھی۔
گولی لگنے کے بعد زخمی بچی کو اس کے والدین ایک نجی اسپتال لے گئے تھے جہاں ان کے دعوے کے مطابق نہ تو معصوم بچی کا علاج کیا گیا اور نہ ہی اسپتال انتظامیہ نے بچی کو کسی دوسرے اسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس اور مصنوعی تنفس کا نظام فراہم کیا جس کی وجہ سے بچی کی جان چلی گئی تھی۔
یہ واقعہ میڈیا پر آنے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا۔