کم عمری میں شادی کے خلاف تحریک چلانے والی نوعمر پاکستانی طالبہ حدیقہ بشیر کے والد کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی بیٹی اور اس کی جدوجہد پر فخر ہے۔
پاکستان کے علاقے سوات سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ حدیقہ بشیر کو پاکستان میں بچیوں کی کم عمری میں اور زبردستی کی جانے والی شادیوں کے خلاف جدوجہد کرنے پر 'محمد علی ہیومنیٹیرین ایوارڈ' سے نوازا گیا ہے۔
وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پاکستان کی پہلی اور دنیا کی سب سے کم عمر لڑکی ہیں۔
اتوار کو ٹیلی فون پر 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو کرتے ہوئے حدیقہ بشیر کے والد افتخار حسین نے کہا کہ ان کی بیٹی کی ایک سہیلی کو کم عمری میں شادی کے بعد گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد حدیقہ کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد اور سات اور 10 برس کی بچیوں کی زبردستی شادیوں کے کئی اور واقعات بھی حدیقہ کے علم میں آئے جس کے بعد گزشتہ سال اس نے معاشرے سے کم عمری کی شادی کی روایت ختم کرنے کی ٹھانی اور اپنی زندگی اس کام کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔
افتخار حسین کا تفصیلی انٹرویو سماعت کرنے کے لیے یہاں کلک کیجئے۔