سویڈن میں 27 سالہ عائدہ حد زیالک کو وزیر تعلیم مقرر کیا گیا جو اس ملک کی تاریخ کی پہلی مسلمان خاتون وزیر ہونے کے علاوہ سب سے کم عمر وزیر بھی ہیں۔
آئی بی این لائیو کی رپورٹ کے مطابق عائدہ حد زیالک 1987 میں بوسنیا میں پیدا ہوئیں۔ 1992ء میں بوسنیا میں خانہ جنگی چھڑنے کی وجہ سے عائدہ کے خاندان نے بوسنیا سے ہجرت کر کے سویڈن میں پناہ حاصل کی اس وقت عائدہ کی عمر پانچ برس تھی۔
سویڈن کی نوجوان وزیر تعلیم عائدہ کہتی ہیں کہ وزارت کے عہدے تک کی کہانی کا آغاز بوسنیا کے سفر سے ہوا تھا۔
سویڈن کی حکمران جماعت سوشل ڈیمو کریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی سیاست دان عائدہ نے اپنے خیالات کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سویڈن کا فلاح وبہبود کا نظام تھا جس نے میرے خاندان کونئی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے مواقع فراہم کئے اور انھیں سوشل ڈیمو کریٹک بنا دیا۔
محترمہ عائدہ سویڈش حکومت میں ثانوی تعلیم اور بالغان کی تعلیم اور ٹریننگ کے شعبوں کے لیے بحیثیت وزیر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
عائدہ حد زیالک سویڈن کی لنڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سال 2010 میں 23 برس کی عمر میں اپنے رہائشی علاقے ' ہامسٹیڈ ' کے لیے ڈپٹی میئر منتخب ہوئیں اور وزیر تعلیم بننے سے قبل تک اس عہدے پر فرائض انجام دیتی رہی ہیں جبکہ وہ صرف 16 برس کی عمر سے سویڈن کی سیاست کے میدان میں قدم رکھ چکی تھیں ۔
گذشتہ ماہ سویڈن میں منعقدہ انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے کامیابی حاصل کرنے کے بعد جب پارٹی کے سربراہ اسٹیفن لوفین نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو کہا کہ ان کی نئی حکومت حقوق نسواں کی علمبردار ہے اس لیے جب اکتوبر کے اوائل میں نئی کابینہ کا اعلان کیا گیا تو ان ناموں میں 12 خواتین اور 12 مرد وزیروں کے نام شامل کئے گئے۔
57 سالہ سویڈش وزیراعظم اسٹیفن لوفین کی جانب سے جن خاتون وزراء کے ناموں کا اعلان کیا گیا ان میں ایک نام نوجوان سیاستدان عائدہ کا نام بھی تھا۔ عائدہ سویڈش کابینہ میں وزارت کے عہدے کی خدمات انجام دینے کے لیے اب تک کی سب سے کم عمر ترین وزیر ہیں۔
سویڈش آن لائن کے مطابق عائدہ اپنے بلاگ میں لکھتی ہیں کہ "ایک رات اچانک ہمیں اپنا گھر بار، تعلیم، روزگار اور دوست احباب سبھی کچھ چھوڑ کر بوسنیا سے نکلنا پڑا ہمارے مستقبل کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے آج مجھے اس سے زیادہ کچھ یاد نہیں کہ وہ ایک تکلیف کا وقت تھا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہی وقت تھا جس نے مجھے سوشل ڈیموکریٹک سیاستدان بنادیا۔"
وہ لکھتی ہیں کہ "میں چاہتی ہوں کہ سویڈن میں پناہ گزینوں کے بچے پڑھیں بالکل میری طرح اور وکالت کے شعبے میں آئیں میرے والدین نے میری تعلیم کے لیے کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا میں نے مفت تعلیم حاصل کی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمیونٹی نے میرے اوپر ایک طرح کی سرمایہ کاری کی تھی اور اب میں اپنا یہ قرض ادا کرنا چاہتی ہوں تاکہ میری طرح دوسروں کو بھی ایسے موقع حاصل ہوں۔"
گذشتہ برس سویڈن کے ایک پبلشرز کی جانب سے عائدہ کو101 انتہائی باصلاحیت افراد کی فہرست میں 10 ویں نمبر پر جگہ ملی۔
عائدہ خاص طور پر پرامید ہیں کہ وہ سایست میں نئی نسل کا نقطئہ نظر پیش کر سکیں گی اوراسکولوں کو بہتر بنانے اور نوجوانوں کے لیے تعلیم کی مناسبت سےنئےروزگار کے مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے کام کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی 2011ء کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سویڈن کے دروازے تارکین وطن کے لیے دہائیوں سے کھلے ہیں یہاں کی تقریباً 15 فیصد آبادی غیر ملکیوں پر مشتمل ہے جبکہ سویڈن کی لگ بھگ نوے لاکھ کی آبادی میں سے مسلمانوں کی تعداد تقریباً 500,000 کے قریب ہے۔