دارلحکومت دمشق کے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے 26افراد کی نمازِ جنازہ کے موقع پر ہفتے کے دِن ماتم کرنے والوں نے صدر بشار الاسد کی حمایت میں نعرے بلند کیے۔
اسد حکومت کا کہنا ہے کہ جمعے کوہونے والا یہ تباہ کُن دھماکہ، جِس میں 60سے زائد افراد زخمی ہوئے، ایک دہشت گرد حملہ تھا جو مبینہ طور پر اپوزیشن گروپوں کی کارستانی تھی، جو پچھلے 10ماہ سے صدر کو ہٹانے کی مہم چلا رہے ہیں۔
ساتھ ہی، مخالفین کے سرگرم کارکوں نے بم حملے میں ملوث ہونے کےبارے میں الزام کو مسترد کیا ہے۔ اُن کا استفسار ہے کہ حکومت نے خود اِس حملے کی پشت پناہی کی، جِس کامقصد حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والوں کو بدنام کرنا ہے۔
جمعے کےروزکے اِس حملے کا شکار زیادہ تر پولیس والے بتائے جاتے ہیں، جو ایک بس میں سوار تھے،جِن کے اِس طاقت ور دھماکےکے نتیجے میں چیتھڑے اُڑ گئے۔
شام کے سرکاری میڈیا نے وزارتِ داخلہ کے ایک لیفٹیننٹ جنرل کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایک مرد خودکش حملہ آور نے وسطی مِدان ضلعے میں اپنے آپ کو بھک سے اُڑا دیا، تاہم مزید تفاصیل دستیاب نہیں ہیں۔
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سرگر م کارکنوں کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز رات گئے ملک کے متعدد حصوں میں احتجاجی مظاہرین پر پُر تشدد کارروائیاں جاری رہیں ، اور اُن کی اطلاع کے مطابق 17شہری ہلاک ہوگئے ہیں۔
سرگرم کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہفتے کے دِن شام کی سکیورٹی فورسز نے حمص کے وسطی شہراور دیگر علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرین پر فائر کھول دیا، جِن میں کم از کم ایک شخص ہلاک ہوگیا۔