پناہ گزینوں کے عالمی ادارے نے کہاہے کہ اس سال کے آخر تک شام سے سات لاکھ پناہ گزین دوسرے ملکوں کارخ کرسکتے ہیں۔ یہ تعداد اس سے پہلے لگائے گئے اندازوں سے کہیں زیاد ہ ہے۔
عالمی ادارے کا کہناہے کہ اسے پناہ گزینوں کی بڑی ہوئی تعداد کے پیش نظر اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید کروڑوں ڈالر کے فنڈز کی ضرورت ہے۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے یواین ایچ سی آر نے عطیات دینے والوں سے 50 کروڑ ڈالر کی اپیل کی ہےتاکہ وہ اردن، لبنان، عراق اور ترکی میں شام کے پناہ گزینوں کی بنیادی ضروریات پوری کرسکے۔
پناہ گزینوں سے متعلق تازہ ترین سات لاکھ افراد کی پیش گوئی اگست میں لگائے گئے تخمینوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ پچھلے مہینے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اس سال شام سے ایک لاکھ 85 ہزار پناہ گزین ملک چھوڑ سکتے ہیں۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کے شامی پناہ گزینوں سے متعلق علاقائی کوآرڈی نیٹر ہناس موسس نے جنیوا میں ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ شام میں بحران کے شروع کے مہینوں میں ہرہفتے ایک ہزار سے پانچ ہزار پناہ گزین ملک چھوڑ رہے تھے جب کہ اب سرحد عبورکرنے والوں کی تعداد دو سے تین ہزار افراد روزانہ ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ 18 مہینوں کے دوران تین لاکھ پناہ گزین شام چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ سرحد عبور کرنے والے زیادہ تر پناہ گزینوں کی کمر پر ان کے پہننے کے کپڑوں کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ اور ان میں سے اکثر کو سرحد عبور کرنے سے اپنی جان بچانے کے لیے ملک کے ا ندر مختلف مقامات پر پناہ لینی پڑی۔
موسس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ صورت حال ہر گذرتے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔
یواین ایچ سی آر کا کہناہے کہ شام کے پناہ گزینوں کی آدھی تعداد کیمپوں میں رہ رہی ہے اور ان میں سے زیادہ تر کے پاس صرف خیمے ہیں۔
ایک پناہ گزین دوماہ قبل اردن میں کھولا گیاتھا جہاں اب 30 ہزار سے زیادہ پناہ گزین پہنچ چکے ہیں۔
شمالی عراق میں واقع ایک کیمپ میں پناہ گزینوں کی تعداد 27 ہزار سے زیادہ ہے جب کہ ترکی کے 13 کیمپوں میں 88 ہزار پناہ گزین رہ رہے ہیں۔
یواین ایچ سی آر کا کہناہے کہ شام کے پناہ گزنیوں میں 75 فی صد تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔
عالمی ادارے کا کہناہے کہ اسے پناہ گزینوں کی بڑی ہوئی تعداد کے پیش نظر اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید کروڑوں ڈالر کے فنڈز کی ضرورت ہے۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے یواین ایچ سی آر نے عطیات دینے والوں سے 50 کروڑ ڈالر کی اپیل کی ہےتاکہ وہ اردن، لبنان، عراق اور ترکی میں شام کے پناہ گزینوں کی بنیادی ضروریات پوری کرسکے۔
پناہ گزینوں سے متعلق تازہ ترین سات لاکھ افراد کی پیش گوئی اگست میں لگائے گئے تخمینوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ پچھلے مہینے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اس سال شام سے ایک لاکھ 85 ہزار پناہ گزین ملک چھوڑ سکتے ہیں۔
پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کے شامی پناہ گزینوں سے متعلق علاقائی کوآرڈی نیٹر ہناس موسس نے جنیوا میں ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ شام میں بحران کے شروع کے مہینوں میں ہرہفتے ایک ہزار سے پانچ ہزار پناہ گزین ملک چھوڑ رہے تھے جب کہ اب سرحد عبورکرنے والوں کی تعداد دو سے تین ہزار افراد روزانہ ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ 18 مہینوں کے دوران تین لاکھ پناہ گزین شام چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ سرحد عبور کرنے والے زیادہ تر پناہ گزینوں کی کمر پر ان کے پہننے کے کپڑوں کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ اور ان میں سے اکثر کو سرحد عبور کرنے سے اپنی جان بچانے کے لیے ملک کے ا ندر مختلف مقامات پر پناہ لینی پڑی۔
موسس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ صورت حال ہر گذرتے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔
یواین ایچ سی آر کا کہناہے کہ شام کے پناہ گزینوں کی آدھی تعداد کیمپوں میں رہ رہی ہے اور ان میں سے زیادہ تر کے پاس صرف خیمے ہیں۔
ایک پناہ گزین دوماہ قبل اردن میں کھولا گیاتھا جہاں اب 30 ہزار سے زیادہ پناہ گزین پہنچ چکے ہیں۔
شمالی عراق میں واقع ایک کیمپ میں پناہ گزینوں کی تعداد 27 ہزار سے زیادہ ہے جب کہ ترکی کے 13 کیمپوں میں 88 ہزار پناہ گزین رہ رہے ہیں۔
یواین ایچ سی آر کا کہناہے کہ شام کے پناہ گزنیوں میں 75 فی صد تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔