یورپی یونین نے حزبِ مخالف سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے خلاف پر تشدد کاروائیاں نہ روکنے پر صدر بشار الاسد کی سربراہی میں قائم شام کی حکومت کے خلاف مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے شام پر پہلے ہی بعض اقتصادی پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں لیکن حالات میں بہتری نہ آنے کے باعث یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ جمعرات کو ہونے والے ایک اجلاس میں دمشق کے ساتھ تجارتی روابط اور معاشی تعلقات مزید محدود کرنے پر غور کریں گے۔
یورپی یونین نے شام کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب پیر کو شام کے کئی شہروں میں ہزاروں افراد نے عرب لیگ کی جانب سے شام پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
شام کے سرکاری ٹی وی کے مطابق دارالحکومت دمشق کے علاوہ حلب اور ہساکے سمیت شام کے دیگرشہروں میں بھی ہزاروں افراد نے شام پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے عرب لیگ کے اقدام کے خلاف شدید احتجاج کیا جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔
سرکاری ٹی وی پر نشر کی گئی ایک پریس کانفرنس میں شام کے وزیرِ خارجہ ولید المعلم نے عرب لیگ کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس اقدام کو شام کے خلاف "معاشی جنگ کا آغاز" قرار دیا۔
شام کے وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ عرب لیگ یہ تسلیم نہیں کررہی ہے کہ شام غیر ملکی سازش کا شکار ہے۔
یاد رہے کہ عرب لیگ کے حکام نے شام میں گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے خلاف حکومتی کاروائیوں کا جائزہ لینے کی غرض سے تنظیم کے مبصرین کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے کے لیے صدر بشار الاسد کی حکومت کو جمعہ تک کا وقت دیا تھا۔
تاہم صدر الاسد کی انتظامیہ کی جانب سے اس ضمن میں کوئی مثبت پیش رفت نہ ہونے پر تنظیم کے عہدیداران نے اتوار کو ایک اجلاس میں شام کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دیدی تھی۔
دریں اثنا انسانی حقوق کے کارکنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی افواج نے اتوار کو ملک کے مختلف حصوں میں کی گئی کاروائیوں کے دوران مزید 23 افراد کو قتل کردیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں رواں برس مارچ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران اب تک سارھے تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔