واشنگٹن —
مشکل میں گھرے شامی صدر، بشار الاسد تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑیں گے۔ اِس بات کا اعلان پیر کے روز پارلیمان کے اسپیکر نے ٹیلی ویژن پر ایک بیان میں کیا۔
تین جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے امیدواروں نے گذشتہ ہفتے سے نامزدگیاں درج کرانا شروع کر دی ہیں۔
مارچ 2011ء میں شروع ہونے والے پُرامن مظاہروں نے ایک تنازعے کی شکل اختیار کر لی ہے، اور مسٹر اسد کو باغیوں سے لڑائی کا سامنا ہے؛ جس میں اضافہ ہوتے ہوتے اب یہ خانہ جنگی میں بدل چکی ہے، جس میں اب تک 150000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مزید 26 لاکھ لوگ شام چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکے ہیں اور اس بحران کے باعث شام کے اندر 65 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
صدر 2000ء سے اقتدار میں ہیں، جب اُنھوں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد عہدہ سنبھالا، جنھوں نے 30 برس تک شام پر حکمرانی کی۔
مسٹر اسد نے 2007ء میں دوسری مرتبہ عہدہ سنبھالا، جنھیں 97 فی صد ووٹ پڑے، جِن انتخابات کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ وہ اکیلے ہی امیدوار تھے۔
تین جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے امیدواروں نے گذشتہ ہفتے سے نامزدگیاں درج کرانا شروع کر دی ہیں۔
مارچ 2011ء میں شروع ہونے والے پُرامن مظاہروں نے ایک تنازعے کی شکل اختیار کر لی ہے، اور مسٹر اسد کو باغیوں سے لڑائی کا سامنا ہے؛ جس میں اضافہ ہوتے ہوتے اب یہ خانہ جنگی میں بدل چکی ہے، جس میں اب تک 150000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مزید 26 لاکھ لوگ شام چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکے ہیں اور اس بحران کے باعث شام کے اندر 65 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
صدر 2000ء سے اقتدار میں ہیں، جب اُنھوں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد عہدہ سنبھالا، جنھوں نے 30 برس تک شام پر حکمرانی کی۔
مسٹر اسد نے 2007ء میں دوسری مرتبہ عہدہ سنبھالا، جنھیں 97 فی صد ووٹ پڑے، جِن انتخابات کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ وہ اکیلے ہی امیدوار تھے۔