واشنگٹن —
شام کے سب سے بڑے شہرحلب میں حکومت کے زیرانتظام ایک علاقے میں بدھ کو ہونے والے یکے بعد دیگرے چار بم دھماکوں میں ہونے والی ہلاکتیں 48 سے تجاوز کرگئی ہیں جب کہ 100 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
دھماکے شہر کے ایک مرکزی چوک میں ہوئے جن سے قریب ہی واقع فوجی افسران کا ایک کلب اور نزدیکی ہوٹل زمین بوس ہوگئے۔
حزبِ اختلاف کی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ دھماکوں میں 48 افراد ہلا ک ہوئے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق سرکاری سیکیورٹی فورسز سے ہے۔ شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے ہلاکتوں کی تعداد 31 بتائی ہے۔
مقامی افراد کے مطابق چار میں سے تین دھماکے گاڑیوں میں نصب کردہ بموں کے تھے جو سعداللہ جبری نامی چوک پر ہوئے۔ مقامی افراد کے مطابق دھماکوں کے نتیجے میں جو نزدیکی ہوٹل تباہ ہوا ہے وہاں حکومت کے حامی جنگجو مقیم تھے۔
چوتھا بم دھماکہ قریب ہی واقع 'چیمبر آف کامرس' کے نزدیک ہوا۔
ایک حکومت نواز ٹیلی ویژن چینل نے دھماکوں کے بعد کے مناظر نشر کیے ہیں جن میں متعدد تباہ شدہ عمارتوں اور سڑک پر ملبے کا ڈھیر دیکھا جاسکتا ہے۔
سرکاری میڈیا نے دہشت گردوں پر ان حملوں کی ذمہ داری عائد کی۔
دریں اثنا شام کے علاقے سے فائر کیا گیا ایک مارٹر ترکی کےجنوب مشرقی سرحدی قصبے آکاکیلے میں گرنے سے پانچ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق شامی علاقے سے فائر کیا جانے والی مارٹر ایک رہائشی علاقے میں گرا جس سے پانچ افراد ہلاک اور کم از کم نو شدید زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک ماں اور اس کے تین بچے بھی شامل ہیں۔
واقعے کے بعد ترک وزیرِ خارجہ احمد اوغلو نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کو فون کرکے انہیں آکا کیلے میں پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
دریں اثناء شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ ایلچی لخدار براہیمی ملک میں 18 ماہ سے جاری لڑائی کے خاتمے کی کوششوں کی بحالی کے سلسلے میں آئندہ ہفتے ایک بار پھر خطے کا دورہ کرنے جارہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل الیسن نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ خصوصی ایلچی قاہرہ میں قیام کریں گے۔
اُنھوں نے ایک بار پھر کہا کہ عالمی ادارہ اسد حکومت کی جانب سے تشدد میں کمی کا خواہاں ہے جس کے بعد مخالفین کو بھی ایسی کوششیں کرنی چاہئیں۔
دھماکے شہر کے ایک مرکزی چوک میں ہوئے جن سے قریب ہی واقع فوجی افسران کا ایک کلب اور نزدیکی ہوٹل زمین بوس ہوگئے۔
حزبِ اختلاف کی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ دھماکوں میں 48 افراد ہلا ک ہوئے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق سرکاری سیکیورٹی فورسز سے ہے۔ شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے ہلاکتوں کی تعداد 31 بتائی ہے۔
مقامی افراد کے مطابق چار میں سے تین دھماکے گاڑیوں میں نصب کردہ بموں کے تھے جو سعداللہ جبری نامی چوک پر ہوئے۔ مقامی افراد کے مطابق دھماکوں کے نتیجے میں جو نزدیکی ہوٹل تباہ ہوا ہے وہاں حکومت کے حامی جنگجو مقیم تھے۔
چوتھا بم دھماکہ قریب ہی واقع 'چیمبر آف کامرس' کے نزدیک ہوا۔
ایک حکومت نواز ٹیلی ویژن چینل نے دھماکوں کے بعد کے مناظر نشر کیے ہیں جن میں متعدد تباہ شدہ عمارتوں اور سڑک پر ملبے کا ڈھیر دیکھا جاسکتا ہے۔
سرکاری میڈیا نے دہشت گردوں پر ان حملوں کی ذمہ داری عائد کی۔
دریں اثنا شام کے علاقے سے فائر کیا گیا ایک مارٹر ترکی کےجنوب مشرقی سرحدی قصبے آکاکیلے میں گرنے سے پانچ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق شامی علاقے سے فائر کیا جانے والی مارٹر ایک رہائشی علاقے میں گرا جس سے پانچ افراد ہلاک اور کم از کم نو شدید زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک ماں اور اس کے تین بچے بھی شامل ہیں۔
واقعے کے بعد ترک وزیرِ خارجہ احمد اوغلو نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کو فون کرکے انہیں آکا کیلے میں پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
دریں اثناء شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ ایلچی لخدار براہیمی ملک میں 18 ماہ سے جاری لڑائی کے خاتمے کی کوششوں کی بحالی کے سلسلے میں آئندہ ہفتے ایک بار پھر خطے کا دورہ کرنے جارہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل الیسن نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ خصوصی ایلچی قاہرہ میں قیام کریں گے۔
اُنھوں نے ایک بار پھر کہا کہ عالمی ادارہ اسد حکومت کی جانب سے تشدد میں کمی کا خواہاں ہے جس کے بعد مخالفین کو بھی ایسی کوششیں کرنی چاہئیں۔