شام کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے ایک غیر ملکی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ 2014ء کے دوران شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں 76 ہزار سے زائد افراد کی جان گئی ہے۔
لندن میں قائم ادارے 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ مرنے والوں میں ساڑھے تین ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔
آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ اسے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق شام میں 2011ء سے جاری خانہ جنگی میں 31 دسمبر 2014 تک مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ چھ ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔
ادارے نے یہ اعداد و شمار شام میں موجود اپنے رضاکاروں اور ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں سے جمع کیے ہیں جس کے باعث ان کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ بھی شام میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار مرتب کرتا رہا ہے لیکن عالمی ادارے نے چند ماہ قبل یہ اعداد ذرائع ابلاغ کو جاری کرنا بند کردیے تھے۔
اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے دسمبر میں کہا تھا کہ شام میں گزشتہ پونے چار سال سے جاری خانہ جنگی سے ہونے والی ہلاکتیں دو لاکھ سے تجاوز کرگئی ہیں۔
'سیرین آبزرویٹری' کے مطابق 2014 ء کے دوران شامی خانہ جنگی سے مرنے والے 74 ہزار افراد میں 17 ہزار 790 عام شہری تھے جن میں ساڑھے تین ہزار بچے بھی شامل تھے۔
'آبزرویٹری' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے دیگر افراد شامی مسلح افواج کے اہلکار اور حکومت کی حامی ملیشیاؤں کے ارکان، باغی جنگجو اور جہادی تنظیموں کے رضاکار تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013ء کے دوران شام میں 73 ہزار 447، 2012ء میں 49 ہزار 294 اور 2011ء میں سات ہزار 841 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق شام کی پیچیدہ صورتِ حال کے باعث زخمیوں کا ریکارڈ جمع کرنا خاصا مشکل ہے۔ تاہم 'عالمی ادارۂ صحت' کی شام میں نمائندہ ایلزبتھ ہوف نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ شام کی خانہ جنگی کے دوران زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 10 لاکھ سے زائد تک ہوسکتی ہے۔