حکومت شام کی افواج، باغی عسکریت پسند اور داعش کے شدت پسندوں کی جانب سے علاقوں پر قبضہ جاری تنازع پر خطرناک اثرات مرتب کر رہا ہے، جس میں ختم ہونے کے کوئی آثار نمایاں نہیں۔ یہ بات اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے منگل کے روز شام کے بحران کے بارے میں منگل کے روز اپنے تازہ ترین تخمینے میں بتائی ہے۔
پالو پنہیرو اقوام متحدہ کی کمیشن آف انکوائری برائے شام کے سربراہ ہیں۔ اُنھوں نے جنیوا میں حقوق انسانی کونسل کو بتایا کہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے، اور لڑائی میں شامل فریق بڑھ چڑھ کر گنجان آباد شہری علاقوں پر اندھا دھند حملے کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اس کا نتیجہ کسی رستے ہوئے زخم کی صورت میں ہی نمودار ہوگا، جس معاملے کی سنگینی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
پنہیرو نے کونسل کے سامنے سخت بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ زور پکڑتی ہوئی اِن پُرتشدد کارروائیوں میں شہریوں کا ہی زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
شام میں مارچ 2011ء میں شروع ہونے والے اس تنازع میں اب تک 220000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد امداد کی تلاش میں ہیں، جب کہ پرُ تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں 40 لاکھ افراد پناہ گزیں بن چکے ہیں، جب کہ 76 لاکھ افراد داخلی طور پر شام میں نقل مکانی کرچکے ہیں۔
کمیشن نے بیرل بم کے استعمال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہےکہ یہ سنگدلانہ حملے جن کا شہری نشانہ بن رہے ہیں، ان کا احتساب کیا جانا چاہیئے۔
پنہیرو نےاس تنازع کے سفارتی حل میں ناکامی پر بین الاقوامی برادی پر بھی نکتہ چینی کی۔
اُنھوں نے کہا کہ قابل عمل اقدام کی عدم موجودگی نے شام میں من مانی کے رویے کو بڑھاوار دیا اور اسے پروان چڑھایا ہے۔
پنہیرو نے کہا ہے کہ لڑائی کے طول پکڑنے سے سفارت کاری کی ناکامی کا احساس ہوتا ہے۔