شام میں زخمیوں کو علاج کے لیے ہسپتالوں میں لے جانا خطرناک ہے کیوں کہ صدر بشار الاسد کی فورسز احتجاج کرنے والوں اور باغیوں کی تلاش میں وہاں جاتی ہیں۔ زخمی ہو جانے والے شامی، طبی امداد کے لیے ہمسایہ ملک لبنان کا طویل اور خطرناک سفر کرتے ہیں۔
حسنہ ایک عام سی گھریلو خاتون ہیں جو شام کے شہر حمص کے مضافات میں اپنے شوہر اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں ۔ چار مہینے پہلے جب شہر پر مسلسل بمباری ہونے لگی، تو انہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ حالات کچھ پر سکون ہو گئے ہیں تو انھوں نے واپسی کا سفر شروع کیا اور یہی وہ وقت تھا جب اس گھرانے پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ یہ گھرانہ موٹر سائیکل پر سوار تھا کہ ایک راکٹ کا نشانہ بن گیا۔
حسنہ کہتی ہیں’’میری بیٹی میرے بازوؤں میں تھی، جب یہ حادثہ ہوا ۔ میری بیٹی میرے ہاتھوں سے نکل کر دو ر جا پڑی۔ میں اس راکٹ کی آواز کبھی نہیں بھول سکوں گی ۔ ہم سب زمین پر پڑے ہوئے تھے، اور میں دعا مانگ رہی تھی۔‘‘
حسنہ کے دونوں بچے فوراً ہی ہلاک ہو گئے اور کچھ دیر بعد اس کا شوہر بھی ۔ حسنہ کی دونوں ٹانگیں ضائع ہو گئیں۔’’میری ٹانگیں ختم ہو چکی ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ انہیں کاٹنا پڑے گا۔‘‘
باغیوں نے انہیں حمص سے شمالی لبنان میں طرابلس کے شہر تک پہنچانے میں مدد دی ۔ عام طور سے اس سفر میں دو گھنٹے لگتے ہیں لیکن حسنہ کو طرابلس پہنچنے میں 12 گھنٹے لگ گئے ۔ انہیں کئی گاڑیوں میں منتقل کیا گیا اور کچھ فاصلہ اسٹریچر میں طے کیا گیا ۔ لبنان پہنچنے کے بعد، ریڈ کراس نے انہیں اس ہسپتال میں پہنچایا۔
ایک صاحب جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے، کہتے ہیں کہ وہ سرکاری فوج میں افسر تھے لیکن جنوری میں انھوں نے سرکاری فوج کو چھوڑ دیا اور فری سیرین آرمی میں شامل ہو گئے ۔ اپریل میں حمص میں لڑائی کے دوران وہ زخمی ہو گئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ شام میں جو تشدد ہو رہا ہے وہ سرا سر صدر اسد کی وجہ سے ہے ۔
وہ کہتے ہیں’’بشر فوج کے کمانڈر ان چیف ہیں، اور فوج ان کے براہ ِ راست حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی ۔ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری انہیں پر ہے ۔ وہ اور ان کے قریبی حلقے کے لوگ ہی ملک پر حکومت کرتے ہیں۔‘‘
منحرف ہونے والے اس فوجی کو کئی زخم آئے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ حزبِ ِ اختلاف کے لیے جنگ کرتے رہیں گے ۔ ’’اپنے آپریشن کے بعد، میں فوری طور پر شام چلا جاؤں گا اور فری آرمی میں شامل ہو جاؤں گا۔ ‘‘
حسنی ایک عام شہری ہیں جنہیں چھ مہینے پہلے اس وقت گولی لگی تھی جب وہ اپنی موٹر سائیکل پر سوار تھے ۔ وہ کہتےہیں کہ اچھے ہونے کے بعد، وہ بھی واپس چلے جائیں گے اور شام کو آزادی حاصل کرنے میں مدد دیں گے۔ وہ کہتے ہیں’’میرے لیے جلد از جلد اچھا ہونا ضروری ہے تا کہ میں شام واپس جا سکوں اور اپنے ساتھیوں سے مل سکوں۔ مجھے اطمینان ہے کہ وہ کامیاب ہو رہے ہیں۔ میرا حوصلہ بلند ہو رہا ہے، اور مجھے امید ہے کہ جلد ہی شام کے تمام لوگوں کو اچھی خبر ملے گی۔ ‘‘
سرکاری فورسز نے ڈاکٹروں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ انہیں بھی گرفتار کیا گیا ہے، اذیتیں دی گئی ہیں اور ہلاک کیا گیا ہے ۔ ایک ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انہیں تقریباً ایک سال تک شام میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور زخمی ہمسایوں کا علاج کرنے کی پاداش میں مارا پیٹا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں’’میں ایک عام شہری ہوں، میرا اپنا گھرانہ ہے، مجھے بہت سے لوگ جانتے ہیں، میرا اپنا کلینک ہے، میں یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ اور میں اچانک مجرم بن گیا؟ کیوں؟ اس لیے کہ میں نے اپنے ہمسایوں کی مدد کی۔‘‘
حسنہ کی طرح جو اب بیوہ ہو چکی ہیں، شام میں جاری تشدد کے باوجود ، زخمی ہونے والوں کا حوصلہ مضبوط ہے ۔ حسنہ نے اپنے دُکھ درد کو اشعار کی شکل میں بیان کیا ہے اور اپنے ہم وطنوں پر زور دیا ہے کہ وہ فتح اور آزادی حاصل کر کے رہیں۔
حسنہ ایک عام سی گھریلو خاتون ہیں جو شام کے شہر حمص کے مضافات میں اپنے شوہر اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں ۔ چار مہینے پہلے جب شہر پر مسلسل بمباری ہونے لگی، تو انہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ حالات کچھ پر سکون ہو گئے ہیں تو انھوں نے واپسی کا سفر شروع کیا اور یہی وہ وقت تھا جب اس گھرانے پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ یہ گھرانہ موٹر سائیکل پر سوار تھا کہ ایک راکٹ کا نشانہ بن گیا۔
حسنہ کہتی ہیں’’میری بیٹی میرے بازوؤں میں تھی، جب یہ حادثہ ہوا ۔ میری بیٹی میرے ہاتھوں سے نکل کر دو ر جا پڑی۔ میں اس راکٹ کی آواز کبھی نہیں بھول سکوں گی ۔ ہم سب زمین پر پڑے ہوئے تھے، اور میں دعا مانگ رہی تھی۔‘‘
حسنہ کے دونوں بچے فوراً ہی ہلاک ہو گئے اور کچھ دیر بعد اس کا شوہر بھی ۔ حسنہ کی دونوں ٹانگیں ضائع ہو گئیں۔’’میری ٹانگیں ختم ہو چکی ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ انہیں کاٹنا پڑے گا۔‘‘
باغیوں نے انہیں حمص سے شمالی لبنان میں طرابلس کے شہر تک پہنچانے میں مدد دی ۔ عام طور سے اس سفر میں دو گھنٹے لگتے ہیں لیکن حسنہ کو طرابلس پہنچنے میں 12 گھنٹے لگ گئے ۔ انہیں کئی گاڑیوں میں منتقل کیا گیا اور کچھ فاصلہ اسٹریچر میں طے کیا گیا ۔ لبنان پہنچنے کے بعد، ریڈ کراس نے انہیں اس ہسپتال میں پہنچایا۔
ایک صاحب جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے، کہتے ہیں کہ وہ سرکاری فوج میں افسر تھے لیکن جنوری میں انھوں نے سرکاری فوج کو چھوڑ دیا اور فری سیرین آرمی میں شامل ہو گئے ۔ اپریل میں حمص میں لڑائی کے دوران وہ زخمی ہو گئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ شام میں جو تشدد ہو رہا ہے وہ سرا سر صدر اسد کی وجہ سے ہے ۔
وہ کہتے ہیں’’بشر فوج کے کمانڈر ان چیف ہیں، اور فوج ان کے براہ ِ راست حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی ۔ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری انہیں پر ہے ۔ وہ اور ان کے قریبی حلقے کے لوگ ہی ملک پر حکومت کرتے ہیں۔‘‘
منحرف ہونے والے اس فوجی کو کئی زخم آئے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ حزبِ ِ اختلاف کے لیے جنگ کرتے رہیں گے ۔ ’’اپنے آپریشن کے بعد، میں فوری طور پر شام چلا جاؤں گا اور فری آرمی میں شامل ہو جاؤں گا۔ ‘‘
حسنی ایک عام شہری ہیں جنہیں چھ مہینے پہلے اس وقت گولی لگی تھی جب وہ اپنی موٹر سائیکل پر سوار تھے ۔ وہ کہتےہیں کہ اچھے ہونے کے بعد، وہ بھی واپس چلے جائیں گے اور شام کو آزادی حاصل کرنے میں مدد دیں گے۔ وہ کہتے ہیں’’میرے لیے جلد از جلد اچھا ہونا ضروری ہے تا کہ میں شام واپس جا سکوں اور اپنے ساتھیوں سے مل سکوں۔ مجھے اطمینان ہے کہ وہ کامیاب ہو رہے ہیں۔ میرا حوصلہ بلند ہو رہا ہے، اور مجھے امید ہے کہ جلد ہی شام کے تمام لوگوں کو اچھی خبر ملے گی۔ ‘‘
سرکاری فورسز نے ڈاکٹروں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ انہیں بھی گرفتار کیا گیا ہے، اذیتیں دی گئی ہیں اور ہلاک کیا گیا ہے ۔ ایک ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انہیں تقریباً ایک سال تک شام میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور زخمی ہمسایوں کا علاج کرنے کی پاداش میں مارا پیٹا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں’’میں ایک عام شہری ہوں، میرا اپنا گھرانہ ہے، مجھے بہت سے لوگ جانتے ہیں، میرا اپنا کلینک ہے، میں یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ اور میں اچانک مجرم بن گیا؟ کیوں؟ اس لیے کہ میں نے اپنے ہمسایوں کی مدد کی۔‘‘
حسنہ کی طرح جو اب بیوہ ہو چکی ہیں، شام میں جاری تشدد کے باوجود ، زخمی ہونے والوں کا حوصلہ مضبوط ہے ۔ حسنہ نے اپنے دُکھ درد کو اشعار کی شکل میں بیان کیا ہے اور اپنے ہم وطنوں پر زور دیا ہے کہ وہ فتح اور آزادی حاصل کر کے رہیں۔