شام میں صدارتی انتخاب کے لیے منگل کو ووٹ ڈالے گئے۔ توقع ہے کہ صدر بشار الاسد اس میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے۔
شام میں حزب مخالف اور اس کے مغربی اتحادیوں نے انتخابات کو مسترد کیا ہے۔
پولنگ مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے شروع ہوئی جو کہ شام سات بجے تک جاری رہی جس کے لیے تقریباً ساڑھے نو ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے۔
وزیراعظم وائل نادر الحلقی نے لوگوں سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے پر زور دیتے ہوئے منگل کو شام کے لیے ایک "تاریخی دن" قرار دیا۔ ان کے بقول اس سے ملک بحالی کی راہ پر گامزن ہو گا۔
حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے جنگجو صدر بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے تین سالوں سے لڑتے آ رہے ہیں اور ملک میں جاری اس خانہ جنگی سے اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
بشارالاسد 2000ء میں اپنے والد کے انتقال کے بعد اقتدار میں آئے اور 2007ء کے صدارتی انتخاب میں وہ واحد امیدوار تھے۔
منگل کو ہونے والے انتخاب میں بشارالاسد کے علاوہ حسن النوری اور ماہر حجاز بھی امیدواروں میں شامل ہیں۔
مارچ 2011ء میں ان کی فورسز نے حکومت مخالف پرامن مظاہرین کے خلاف کارروائی شروع کی جس کے بعد یہ تحریک پر تشدد صورت اختیار کر گئی اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا۔
شام کے بحران کو حل کرنے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں میں حکومت اور حزب مخالف کے نمائندوں کی براہ راست ملاقات بھی شامل تھی لیکن ان کاوشوں کے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔
شام میں حزب مخالف اور اس کے مغربی اتحادیوں نے انتخابات کو مسترد کیا ہے۔
پولنگ مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے شروع ہوئی جو کہ شام سات بجے تک جاری رہی جس کے لیے تقریباً ساڑھے نو ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے۔
وزیراعظم وائل نادر الحلقی نے لوگوں سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے پر زور دیتے ہوئے منگل کو شام کے لیے ایک "تاریخی دن" قرار دیا۔ ان کے بقول اس سے ملک بحالی کی راہ پر گامزن ہو گا۔
حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے جنگجو صدر بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے تین سالوں سے لڑتے آ رہے ہیں اور ملک میں جاری اس خانہ جنگی سے اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
بشارالاسد 2000ء میں اپنے والد کے انتقال کے بعد اقتدار میں آئے اور 2007ء کے صدارتی انتخاب میں وہ واحد امیدوار تھے۔
منگل کو ہونے والے انتخاب میں بشارالاسد کے علاوہ حسن النوری اور ماہر حجاز بھی امیدواروں میں شامل ہیں۔
مارچ 2011ء میں ان کی فورسز نے حکومت مخالف پرامن مظاہرین کے خلاف کارروائی شروع کی جس کے بعد یہ تحریک پر تشدد صورت اختیار کر گئی اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا۔
شام کے بحران کو حل کرنے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں میں حکومت اور حزب مخالف کے نمائندوں کی براہ راست ملاقات بھی شامل تھی لیکن ان کاوشوں کے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔