شام میں حکومت کی جانب سے ملک میں لگ بھگ نصف صدی سے عائد ہنگامی قوانین اٹھانے کے اعلان کے ایک روز بعد، جو حزب اختلاف کا ایک اہم مطالبہ تھا، مظاہروں کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا ہے۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہناہے کہ بدھ کے روز شمالی شہر حلب میں یونیورسٹی کے قریب حکومت مخالف مظاہرین کی ، جن میں اکثریت طالب علموں کی تھی، صدر بشارالاسد کے حامیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔
روئٹرز نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں سرگرم کارکنوں کے حوالےسے بتایا ہے کہ جنوبی شہر درعا میں بھی کئی ہزار طالب علموں نے جلوس نکالے۔
ہنگامی قوانین کے خاتمے کا اعلان شام کے مظاہرین کے ایک اہم مطالبے کی تکمل کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ حکم صدر اسد کی جانب سے مسودے پر دستخطوں کے بعد ہی قانونی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ ہنگامی قوانین کے تحت ملک بھر میں مظاہروں اور جلسے جلوسوں اور اظہار کی آزادیوں پرپابندی عائد ہے۔
منگل کے روز ہنگامی قوانین اٹھائے جانے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر اس کے باوجود مظاہرے ختم نہ ہوئے تو وہ سختی سے کام لے گی۔
منگل کے روز شام کے کئی شہروں اور قصبوں میں ہزاروں لوگوں نے مظاہروں میں حصہ لیا۔ وسطی شہر حمص میں مظاہروں کے دوران دو افراد ہلاک ہوگئے۔ مظاہرین نے شہر کے مرکزی چوک میں دھرنا بھی دیا۔
شام کے حکام نے حزب اختلاف کی کئی اہم شخصیات کو گرفتار کرلیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہناہے کہ سیکیورٹی فورسز نے حزب اختلاف کے ایک راہنما محمود عیسیٰ کو حمص میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کرلیا ہے۔