اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس اور چین نے پھر شام سےمتعلق قرارداد کے مسودے کو ویٹو کردیا ہے، جِس میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف تقریباً ایک برس سے جاری احتجاجی مظاہروں کے خلاف پُر تشدد کارروائی کی مذمت کی گئی تھی۔
پندرہ رکنی کونسل نے مغرب اور عربوں کی حمایت سے پیش کردہ قرارداد پر ووٹ دیا جِس میں تشدد کی کارروائیوں کی مذمت کی گئ تھی اور مسٹر اسد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تیرہ ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جِن میں امریکہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں۔
اقوام ِمتحدہ میں امریکہ کی سفیر سوزن رائیس نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ امریکہ کو روس اور چین کی طرف سے مخالفت میں ووٹ دینے پر’ مایوسی ‘ ہوئی ہے، جِس کے باعث قرارداد کی منظوری کا مرحلہ رُک گیا۔
اُنہی اوقات کے دوران جب نیو یارک میں اقوام متحدہ میں شام پرقرارداد کے سلسلے میں غور و خوض جاری تھا، شام کی سکیورٹی فورسزحمص کے شہر میں بڑے دہانے والے ہتھیاروں سے گولہ باری کر رہی تھیں۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسد حکومت کی پُرتشدد کارروائی کے باعث 200سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
انسانی حقوق سے متعلق ’ سیرین آبزرویٹری‘ نے کہا ہے کہ حمص کے مضافات خالدیہ میں سینکڑوں مزید افراد ہلاک ہوئے اور کچھ عمارتیں تباہ ہوگئیں، جہاں پر سخت حکومت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔
امریکی صدر براک اوباما نے کونسل پر زور دیا تھاکہ وہ شامی صدر بشار الاسد کی ’لا متناہی بربریت‘کے خلاف مؤقف اختیار کرے۔ مسٹر اوباما کا یہ بیان اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ سے قبل جاری ہوا۔ اُس میں، صدر نے کہا کہ وہ مسٹر اسد کے ’ناگفتہ بہ مظالم‘ کی مذمت کرتے ہیں۔اُنھوں نے شام کے لیڈر سے مطالبہ کیا کہ ایک جمہوری راستہ ہموار کرنے کی خاطر وہ اقتدار سےعلیحدہ ہوجائیں۔