ویانا میں شام کے سیاسی مستقبل سے متعلق منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنے والے وزرائے خارجہ اور دوسرے عہدیداروں کا کہنا ہے پیرس میں جمعہ کو ہونے والے مہلک حملوں کے بعد اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ شام کے بحران کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت منعقد ہوئی جب جمعہ کی رات پیرس میں مختلف مقامات پر ہوئے دہشت گرد حملوں میں 129 افراد ہلاک جبکہ 350 سے زائد زخمی ہوئے۔
دنیا کی عالمی طاقتوں بشمول امریکہ، روس، ایران اور اقوام متحدہ نے ہفتے کو ویانا میں شام سے متعلق ہونے والے دوسرے دور کے مذاکرات میں شرکت کی جس میں شام میں ایک سیاسی تبدیلی کے وسیع منصوبے کے ساتھ ایک ایسے عمل کے بارے میں بات ہوئی جو ملک میں دہشت گرد گروپوں سے متعلق اتفاق رائے کا سبب بن سکے۔
فرانسیسی زبان میں بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ "ہم روئے زمین سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے عزم کے ساتھ ہم فرانس اور باقی دنیا کے ساتھ کھڑے ہیں"۔
اس بات کا اظہار انہوں نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف اور شام پر اقوام متحدہ کے نمائندے استیفاں ڈی مستورا کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔
ان مذاکرات میں شریک 20 ملکوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ یکم جنوری سے پہلے شامی حکومت اور حزب مخالف کے نمائندوں کو اقوام متحدہ کی ثالثی کے تحت مذاکرات میں شریک کروایا جائے۔
انہوں نے شام میں چھ ماہ کے اندر ایک قابل اعتماد جامع حکومت کے قیام اور 18 ماہ کے اندر صاف و شفاف انتخابات کے لیے بھی اپنی حمایت کا اظہار کیا۔
جان کیری نے کہا کہ اس منصبوبے کے تحت جیسے ہی شامی حکومت اور حزب مخالف کے نمائندے اقوام متحدہ کی نگرانی میں سیاسی تبدیلی کے لیے ابتدائی اقدامات اٹھاتے ہیں تو عارضی جنگ بندی کا قیام عمل میں آ سکتا ہے۔
تاہم اس حوالے سے اب بھی وسیع اختلاف موجود ہیں کہ شامی حزب مخالف کے کونسے سے دھڑے اعتدال پسند اور کونسے دہشت گرد ہیں۔ اس اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اردن شام میں دہشت گردوں کے متعلق ایک مشترکہ فہرست کی تیاری کے لیے مربوط طور پرکام کیا جائے گا اور بعد میں یہ فہرست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل می پیش کی جائے گی۔
شام میں سیاسی تبدیلی سے متعلق اتفاق رائے میں پیش رفت کے باوجود امریکہ اور روس کے درمیان شامی صدر بشارالاسد کے کردار کے متعلق واضح اختلافات موجود ہیں۔
روسی وزیر خارجہ لاوروف نے کہا کہ "شام کے مستقبل کا فیصلہ کلی طور پر شام کے عوام کریں گے اور اس حوالے سے جناب اسد کی قسمت کا فیصلہ (بھی وہی) کریں گے"۔
روس اور ایران اسد کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ شام کے سیاسی بحران کے طویل مدتی حل میں اسد کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیئے۔
کیری اور لاوروف اسد اور داعش کے درمیان تعلق کے بارے میں بھی اختلاف رائے موجود تھا۔
لاوروف نے کہا کہ وہ اس منطق سے اتفاق نہیں کرتے کہ " ہر مسئلے کی وجہ اسد ہے"۔