واشنگٹن —
تین ماہ تک شام کے شدت پسندوں کی حراست میں رہنے کے بعد، ترک صحافی کو رہا کرکے اپنے ملک واپس بھیج دیا گیا ہے۔
امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے ’الحرا‘ ٹیلیویژن میں کام کرنے والے، کنیت اُنل حلب میں باغیوں اور حکومتی فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی کوریج کرتے ہوئے اردن کے اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ لاپتا ہوگئے تھے۔
اُنل نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جھڑپوں کے دوران اُن کے ساتھی بشار فہمی کمر میں گولی لگنے کے باعث شدید زخمی ہوگئے تھے۔
اُنل نے بتایا کہ اُنھیں اُس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ زخمی ہونے والےفہمی کی مدد کررہے تھے، اور تب ہی سے زیر حراست رہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حراست کے دوران اُنھیں ایک فوجی قیدخانے میں رکھا گیا، جہاں اُن سے بارہا پوچھ گچھ کی جاتی رہی اور اُن پر ترک انٹیلی جنس کےکارکن ہونے کا الزام لگایا گیا۔
ترک حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کے ایک وفد نے شامی صدر بشار الاسد سے مذاکرات کیے جس کے بعد اُنل کو گذشتہ ہفتے رہا کیا۔ وہ اتوار کے روز ترکی واپس پہنچے۔
امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے ’الحرا‘ ٹیلیویژن میں کام کرنے والے، کنیت اُنل حلب میں باغیوں اور حکومتی فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی کوریج کرتے ہوئے اردن کے اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ لاپتا ہوگئے تھے۔
اُنل نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جھڑپوں کے دوران اُن کے ساتھی بشار فہمی کمر میں گولی لگنے کے باعث شدید زخمی ہوگئے تھے۔
اُنل نے بتایا کہ اُنھیں اُس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ زخمی ہونے والےفہمی کی مدد کررہے تھے، اور تب ہی سے زیر حراست رہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حراست کے دوران اُنھیں ایک فوجی قیدخانے میں رکھا گیا، جہاں اُن سے بارہا پوچھ گچھ کی جاتی رہی اور اُن پر ترک انٹیلی جنس کےکارکن ہونے کا الزام لگایا گیا۔
ترک حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کے ایک وفد نے شامی صدر بشار الاسد سے مذاکرات کیے جس کے بعد اُنل کو گذشتہ ہفتے رہا کیا۔ وہ اتوار کے روز ترکی واپس پہنچے۔