مغربی ملکوں نے بین الاقوامی آبی حدود کے اندر ترکی کے ایک فوجی جیٹ کو مار گرانے پر شام کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا عہد کیا ہے کہ انقرہ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دمشق سے جمعے کے دِن کے اِس واقع کا حساب لیا جائے گا۔
اتوار کو جاری ہونے والے ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ طیارے کوگرانا ایک ’گستاخانہ جارحیت‘ کا اقدام ہے جو کہ ’بین الاقوامی روایات، انسانی زندگی، امن اور سلامتی کےحوالے سے بے حسی روا رکھنے کا مظاہرہ ہے‘۔
برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نےکہا ہے کہ برطانیہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سےشام کےصدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف ’واضح اقدام‘ کیے جانے کا خواہاں ہے۔
اطالوی وزیر خارجہ گولیو ترزی نے کہا ہے کہ اُن کا ملک منگل کو منعقد ہونے والے نیٹو کے اجلاس میں ایک ’فعال کردار‘ ادا کرنے کا منتظر ہے، جس میں فوجی جیٹ پر شام کے حملے کا جواب دینےکے بارے میں غور کیا جائے گا۔
نیٹو کے ایک ترجمان نے کہا کہ ترکی نے اتحاد کی بنیادی شقوں کومدِ نظر رکھتے ہوئے نیٹو کے اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی ہے، جس کےمطابق تنظیم کے تمام ارکان ایک دوسرے کی سلامتی اور سرحدوں کی حفاظت کویقینی بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔
طیارہ گرائے جانے کے واقعے کی تفصیل ابھی تک واضح نہیں۔
ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤداوگلو نے اتوار کے روز شام پر الزام لگایا کہ اُس نےبغیر انتباہ کے بحیرہ ٴاحمر کی بین الاقوامی فضائی حدود کے اندر پرواز کرنے والے جیٹ طیارے کو مار گرایا۔
اُنھوں نے کہا کہ دونوں پائلٹ ایک تربیتی مشن پر تھے اورمختصر لمحوں کے لیے غلطی سے شام کی فضائی حدود میں داخل ہوئے اور یہ کہ وہاں سےجانے کے کئی منٹ بعد طیارے پر حملہ کیا گیا۔
داؤد اوگلو نے کہا کہ جہاز کسی خفیہ مشن پر نہیں تھا اور وہ ریڈار کے ٹیسٹ کی پرواز پر تھا اور غیر مسلح تھا۔