رسائی کے لنکس

شام: اقتدار کی کشمکش کے لیے فیصلہ کن مہینہ


صدر اسد دمشق سے جاچکے ہیں: تجزیہ کار
صدر اسد دمشق سے جاچکے ہیں: تجزیہ کار

اگر اسد حکومت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، تو اس حکومت کے بعد اقتدار کسے ملے گا؟

شام کی فوج اور باغیوں کے درمیان کئی دنوں کی جنگ اور بم کے حملے کے بعد جس میں سیکورٹی کے کئی اعلیٰ عہدے دار ہلاک ہو گئے، اب یہ سوال پیدا ہو رہے ہیں کہ صدر اسد مزید کتنے دن تک اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھ سکتے ہیں۔

بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر، ہلال خاشان کہتے ہیں کہ گذشتہ چند روز کے واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس 16 مہینے پرانے بحران میں، ہوا کا رخ بدل رہا ہے ۔ ’’میرے خیال میں اسد کے دن پورے ہو رہے ہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دمشق سے لاتاکیا چلے گئے ہیں ۔ اور جس طرح دمشق کے ارد گرد شامی فوج کو تعینات کیا گیا ہے، اور شہر پر جو بھاری گولہ باری ہو رہی ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ اسد کی فورسز دمشق کو دشمن کا شہر سمجھتی ہیں ۔ جو شہر آپ کے ملک کا دارالحکومت ہے، اس کے بارے میں ایسا رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔‘‘

لاتاکیا ایک ساحلی شہر ہے جو اسد کے ہم مذہب علویہ فرقے کے لوگوں کا گڑھ ہے۔ خاشان کہتے ہیں کہ اگر یہ صحیح ہے کہ صدر اسد فرار ہو کر وہاں پہنچ گئے ہیں، تو یہ ایسا ہی اقدام ہو گا جو لیبیا کے لیڈر معمر قذافی نے اپنا تختہ الٹے جانے سے کچھ پہلے کیا تھا ۔ وہ بھی حفاظت کے لیے اپنے قبائلی علاقے میں پہنچ گئے تھے ۔

خاشان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شام میں گذشتہ چند دنوں میں نئی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے اور اب پرانا وقت واپس نہیں آئے گا۔

لبنان کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر عماد سالامی اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتےہیں بدھ کے روز بم کے حملے سے پانسہ پلٹ گیا ہے ۔’’میرے خیال میں بدھ کے روز جو کچھ ہوا وہ زلزلے سے کم نہیں ۔ شامی حکومت کی سیکورٹی کے نظام کے لیے یہ سخت دھچکہ ہے ۔ اس حملے سے حکومت مخالف فورسز کا مورال بلند ہو گا اور واقعات کا رخ بدل جائے گا۔ میرے خیال میں حکمراں طبقے کی بالا دستی ختم ہو چکی ہے ۔‘‘

رمضان کا مقدس مہینہ جس میں مسلمان صبح سے شام تک روزہ رکھتے ہیں، عرب دنیا کے بیشتر حصے میں شروع ہو چکا ہے۔ سالامی کہتے ہیں کہ یہ مہینہ فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے ۔
’’میرے خیال میں آنے والے دن، خاص طور سے رمضان المبارک کا مہینہ شام کے لیے فیصلہ کن ہو گا ۔ میرا خیال ہے کہ ہم شام میں ڈرامائی واقعات دیکھیں گے، اور امکا ن یہی ہے کہ شام میں سیکورٹی کا تانا بانا بڑی تیزی سے بکھر جائے گا ۔‘‘

بدھ کے روز صدر اسد کے سیکورٹی کے اعلیٰ عہدے داروں پر حملے کے علاوہ، اس مہینے کے شرو ع میں فوج کے ایک سینیئر جنرل ، مناف طلاس حکومت کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ ان کا تعلق ایک طاقتور سنّی گھرانے سے ہے ، اور پروفیسر سلامے کہتے ہیں کہ اس تبدیلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اسد کو فوج کے اندر سنی قیادت کی وفاداری قائم رکھنے میں دشواری پیش آ رہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں اور بہت سے لوگ ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔

اگر اسد حکومت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، تو اس حکومت کے بعد اقتدار کسے ملے گا؟ کیا حالیہ مہینوں کا مسلح تصادم شام کے بہت سے مذہبی اور نسلی گروپوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش میں تبدیل ہو جائے گا؟

پروفیسرخاشان کہتے ہیں کہ امکان یہ ہے کہ شام میں عراق جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔’’میرے خیال میں اسد کے بعد، شام کی بھی وہی حالت ہو جائے گی جو صدام حسین کے بعد عراق کی ہوئی ہے ۔ عراق میں، کردوں نے اپنا خود مختار علاقہ قائم کر لیا ہے، اور میرے خیال میں علویہ فرقے کے لوگ بھی یہی کریں گے ۔‘‘

شام کی آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ سے کچھ ہی زیادہ ہے ۔ ان کی اکثریت عر ب سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ لیکن وہاں کرد، آرمینی، دروز، عیسائی اور حکمراں علوی فرقے کی اقلیتیں بھی اچھی خاصی تعداد میں آباد ہیں ۔

خاشان کے خیال میں اسد کے بعد کے شام میں، یہ تمام گروپ ایک وفاقی مملکت قائم کر سکتےہیں۔’’میرے لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہو گی کہ شام میں حکومت کا تختہ الٹ جانے کے بعد، شام میں ایک وفاقی نظام قائم ہو گا جس میں ملک کا ہر بڑا نسلی اور مذہبی گروپ اپنا اپنا علاقہ قائم کر لے گا۔‘‘

لیکن تجزیہ کار سلامی کے خیال میں شام میں حالات اس سے مختلف ہوں گے ۔ وہ کہتے ہیں’’میرے خیال میں اسد کے بعد کے دور میں ، شام میں تبدیلی کا عمل آسان نہیں ہو گا۔ لیکن میرے خیال میں، ایسا نہیں ہو گا کہ شام بہت سے ٹکڑوں میں بٹ جائے، جیسا کے بیشتر لوگ کہہ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کو آبادی کے لحاظ سے، فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ اقتدار میں شراکت کا کوئی فارمولا وضع کرنا آسان نہیں ہو گا، لیکن بالآخر، شام کے لوگوں کو مستقبل کے لیے ایک متحدہ، آبادی کے مختلف اجزا پر مشتمل، اور جمہوری تصور پر متفق ہونا پڑے گا ۔
XS
SM
MD
LG