لندن —
شام کے صدر بشار الاسد کے مخالف گروپ آج کل قطر کے دارالحکومت دوہا میں جمع ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان گروپوں کے درمیان ایک نئے اتحاد کی تشکیل پرسمجھوتہ ہوگیا ہے جس کا مقصد اسد حکومت کا خاتمہ ہے۔
برطانیہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ شام کے بحران میں بین الاقوامی طاقتیں زیادہ دلچسپی لیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ برطانیہ کے لیے بہترین راستہ یہ ہو گا کہ وہ اس مسئلے کا فوجی حل تلاش کرنے کے بجائے سیاسی حل تلاش کرے۔
اردن میں ڈیوڈ کیمرون شامی پناہ گزینوں کے زیطری کیمپ میں گئے۔ اس کیمپ میں 30,000 سے زیادہ لوگوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو شام کے جھگڑے کو طے کرنے کے لیے نئے سرے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ اسد اقتدار چھوڑ دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ شام میں پُر امن طریقے سے سیاسی تبدیلی آ جائے اور شام مستقبل میں ایک محفوظ ملک بن جائے۔ لیکن اس وقت بین الاقوامی برادری کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیئے کہ اب تک ہم نے جو کچھ کیا ہے، وہ کافی نہیں ہے۔‘‘
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ویلئیم ہیگ تھائی لینڈ کے دورے پر تھے۔ اس دوران برطانوی پارلیمینٹ میں ایک تحریری بیان پیش کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ شام کی مسلح حزبِ اختلاف کے ساتھ بات چیت شروع کر ے گا۔ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ باغیوں کو ہتھیار فراہم نہیں کیے جائیں گے۔
شام کے قضیے میں سفارتکاری بڑی حد تک بے نتیجہ رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسد حکومت پر زیادہ سخت پابندیاں عائد کرنے کی کئی کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن روس اور چین نے، جو شام کے اتحادی ہیں، ان کوششوں کا کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔
ایک روسی ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر جمعے کے روز شام کے صدر بشار الاسد کا انٹرویو نشر کیا گیا۔ اس انٹرویو میں انھوں نے بین الاقوامی برادری کو انتباہ کیا ہے کہ وہ شام کے معاملات میں دخل نہ دے۔
’’اس تنازعے کا تعلق لوگوں کے ساتھ تصفیے سے نہیں ہے۔ اس میں شامیوں کے مختلف گروپوں کے درمیان مصالحت کا سوال نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی خانہ جنگی نہیں ہو رہی ہے۔ یہ مسئلہ دہشت گردی کا اور شام کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گردوں کو بیرونی ملکوں سے ملنے والی امداد کا ہے۔ یہ ہماری اپنی جنگ ہے۔‘‘
لندن اسکول آف اکنامکس کی تجزیہ کار، عالیہ براہیمی کہتی ہیں کہ اگر برطانیہ شام کے بحران کے تصفیے میں مدد دینا چاہتا ہے تو اسے فوجی طاقت کے بجائے سیاسی حل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔
’’شام میں مسلح حزبِ اختلاف کی مدد کرنا اور شاید فوجی امداد دینا بہت خطرناک ہے کیوں کہ اب تک اس قسم کی کوشش سے، خاص طور سے خلیج کے بعض ملکوں کی طرف سے اس تنازعے کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔‘‘
دوہا میں شام کی حزبِ اختلاف آج کل مذاکرات میں مصروف ہے اور صدر اسد کی حکومت کے بجائے متبادل سیاسی اتحاد پر غور ہو رہا ہے۔ اب تک حزبِ اختلاف کے مختلف گروپوں کے درمیان سخت اختلافات کی وجہ سے مسٹر اسد کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں خلل پڑا ہے۔
لندن کے کنگز کالج کے مائیکل کیر کہتے ہیں کہ ایک نمائندہ سیاسی اتحاد کی تشکیل سے ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو متحد کیا جائے جو شام میں امن قائم کرے۔
’’اب تک چین اور روس، اسد کو اقتدار سے ہٹانے کی ہر کوشش کی مزاحمت کرتے رہے ہیں جب تک کہ کوئی ایسا انتظام نہ ہو جس سے شام میں ان کے مفادات پر منفی اثرات نہ پڑیں۔‘‘
برطانیہ اور اس کے مغربی اتحادی یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ دوہا کی میٹنگوں کے نتیجے میں اس قسم کا کوئی متبادل انتظام وجود میں آ سکتا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، اتوار کے روز، شدید بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں حزبِ اختلاف کے لیڈروں نے ایک نئے اتحاد کی تشکیل پر اتفاق کر لیا ہے جس میں ملک کے ان تمام دھڑوں کے نمائندے شامل ہوں گے جو صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
برطانیہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ شام کے بحران میں بین الاقوامی طاقتیں زیادہ دلچسپی لیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ برطانیہ کے لیے بہترین راستہ یہ ہو گا کہ وہ اس مسئلے کا فوجی حل تلاش کرنے کے بجائے سیاسی حل تلاش کرے۔
اردن میں ڈیوڈ کیمرون شامی پناہ گزینوں کے زیطری کیمپ میں گئے۔ اس کیمپ میں 30,000 سے زیادہ لوگوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو شام کے جھگڑے کو طے کرنے کے لیے نئے سرے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ اسد اقتدار چھوڑ دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ شام میں پُر امن طریقے سے سیاسی تبدیلی آ جائے اور شام مستقبل میں ایک محفوظ ملک بن جائے۔ لیکن اس وقت بین الاقوامی برادری کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیئے کہ اب تک ہم نے جو کچھ کیا ہے، وہ کافی نہیں ہے۔‘‘
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ویلئیم ہیگ تھائی لینڈ کے دورے پر تھے۔ اس دوران برطانوی پارلیمینٹ میں ایک تحریری بیان پیش کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ شام کی مسلح حزبِ اختلاف کے ساتھ بات چیت شروع کر ے گا۔ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ باغیوں کو ہتھیار فراہم نہیں کیے جائیں گے۔
شام کے قضیے میں سفارتکاری بڑی حد تک بے نتیجہ رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسد حکومت پر زیادہ سخت پابندیاں عائد کرنے کی کئی کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن روس اور چین نے، جو شام کے اتحادی ہیں، ان کوششوں کا کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔
ایک روسی ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر جمعے کے روز شام کے صدر بشار الاسد کا انٹرویو نشر کیا گیا۔ اس انٹرویو میں انھوں نے بین الاقوامی برادری کو انتباہ کیا ہے کہ وہ شام کے معاملات میں دخل نہ دے۔
’’اس تنازعے کا تعلق لوگوں کے ساتھ تصفیے سے نہیں ہے۔ اس میں شامیوں کے مختلف گروپوں کے درمیان مصالحت کا سوال نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی خانہ جنگی نہیں ہو رہی ہے۔ یہ مسئلہ دہشت گردی کا اور شام کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گردوں کو بیرونی ملکوں سے ملنے والی امداد کا ہے۔ یہ ہماری اپنی جنگ ہے۔‘‘
لندن اسکول آف اکنامکس کی تجزیہ کار، عالیہ براہیمی کہتی ہیں کہ اگر برطانیہ شام کے بحران کے تصفیے میں مدد دینا چاہتا ہے تو اسے فوجی طاقت کے بجائے سیاسی حل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔
’’شام میں مسلح حزبِ اختلاف کی مدد کرنا اور شاید فوجی امداد دینا بہت خطرناک ہے کیوں کہ اب تک اس قسم کی کوشش سے، خاص طور سے خلیج کے بعض ملکوں کی طرف سے اس تنازعے کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔‘‘
دوہا میں شام کی حزبِ اختلاف آج کل مذاکرات میں مصروف ہے اور صدر اسد کی حکومت کے بجائے متبادل سیاسی اتحاد پر غور ہو رہا ہے۔ اب تک حزبِ اختلاف کے مختلف گروپوں کے درمیان سخت اختلافات کی وجہ سے مسٹر اسد کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں خلل پڑا ہے۔
لندن کے کنگز کالج کے مائیکل کیر کہتے ہیں کہ ایک نمائندہ سیاسی اتحاد کی تشکیل سے ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو متحد کیا جائے جو شام میں امن قائم کرے۔
’’اب تک چین اور روس، اسد کو اقتدار سے ہٹانے کی ہر کوشش کی مزاحمت کرتے رہے ہیں جب تک کہ کوئی ایسا انتظام نہ ہو جس سے شام میں ان کے مفادات پر منفی اثرات نہ پڑیں۔‘‘
برطانیہ اور اس کے مغربی اتحادی یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ دوہا کی میٹنگوں کے نتیجے میں اس قسم کا کوئی متبادل انتظام وجود میں آ سکتا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، اتوار کے روز، شدید بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں حزبِ اختلاف کے لیڈروں نے ایک نئے اتحاد کی تشکیل پر اتفاق کر لیا ہے جس میں ملک کے ان تمام دھڑوں کے نمائندے شامل ہوں گے جو صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔