رسائی کے لنکس

شام کی داعش کے خلاف اردن سے مدد کی درخواست


فائل
فائل

امریکہ کا موقف ہے کہ اسد حکومت شامی عوام کی نمائندہ نہیں لہذا اسے داعش کے خلاف جاری بین الاقوامی فضائی کارروائیوں میں شریک نہیں کیا جاسکتا۔

شام کی حکومت نے پڑوسی ملک اردن سے درخواست کی ہے کہ وہ شدت پسند تنظیموں داعش اور القاعدہ سے مقابلے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی بنائے۔

شام کی وزارتِ خارجہ نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اردن کی حکومت کو داعش، القاعدہ کی شامی شاخ النصرہ فرنٹ اور شام اور خطے میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے لیے دمشق کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

اردن امریکہ کی سربراہی میں بننے والے اس بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہے جو گزشتہ کئی ہفتوں سے شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔

لیکن اس بین الاقوامی اتحاد نے شدت پسند تنظیم کے خلاف شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ تعاون سے گریز کیا ہے۔

امریکہ کا موقف ہے کہ اسد حکومت شامی عوام کی نمائندہ نہیں لہذا اسے دہشت گردوں کے خلاف جاری اس جنگ میں شریک نہیں کیا جاسکتا۔

تاہم بین الاقوامی اتحاد کی فضائی کارروائیوں کا بالواسطہ فائدہ بشار حکومت کو بھی پہنچ رہا ہے کیوں کہ داعش عراق کے ساتھ ساتھ شام کے بھی وسیع رقبے پر قابض ہے۔

شام کی حکومت نے اردن کو داعش کے خلاف تعاون کی یہ پیشکش شدت پسند تنظیم کے جنگجووں کے ہاتھوں ایک اردنی پائلٹ کے وحشیانہ قتل کے ایک روز بعد کی ہے۔

داعش جنگجووں نے منگل کو ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں ایک ماہ قبل یرغمال بنائے جانے والے اردنی پائلٹ معاذ الکسائسبہ کو پنجرے میں بند شعلوں کی نذر ہوتے دکھایا گیا تھا۔

جنگجووں کا کہنا ہے کہ اردنی پائلٹ داعش پر فضائی حملوں میں ملوث تھا لہذا اسے اس کے کیے کی سزا کے طور پر زندہ جلایا گیا ہے۔

لیکن اردن سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں اور مسلمان رہنماؤں نے داعش کی اس کارروائی کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے خلافِ اسلام عمل قرار دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG