رسائی کے لنکس

یونان میں موجود شام و عراق کے پناہ گزین واپس نہیں جانا چاہتے


عبدل کا تعلق شام کے علاقے حلب سے ہے اور وہ وہاں زیتون کی کاشت سے وابستہ تھے۔ لیکن اب یہ خستہ حال خیمے میں اپنی دو سالہ بیٹی، دس ماہ کے بیٹے اور حاملہ بیوی کے ساتھ سر چھپائے بیٹھے ہیں۔

یونان میں مقدونیہ کی سرحد کے قریب خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہزاروں تارکین وطن ابتر صورتحال پر برہم ہیں اور مختلف یورپی ملکوں کی طرف سے روا رکھے جانے والے سلوک کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے حکام کے اندازوں کے مطابق یہاں تقریباً دس ہزار پناہ گزین موجود ہیں جن میں اکثریت شام سے آئے لوگوں کی ہے جب کہ بعض عراق اور شمالی افریقی ملکوں سے یہاں پہنچے ہیں۔

حکام توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا اور رواں ماہ خراب اقتصادیات سے دوچار ملک یونان میں ان پناہ گزینوں کی تعداد 70 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔

شام میں گزشتہ تقریباً پانچ سالوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث یہاں کی ایک بڑی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ان لوگوں کو جہاں حکومتی فورسز کی طرف سے بمباری اور حملوں کا سامنا رہا وہیں شدت پسند گروپ داعش کی کارروائیاں بھی ان کے لیے سوہان روح بنی رہی۔

انسانی اسمگلروں کو خطیر رقم دے کر اور خطرناک سمندری سفر کر کے ان لوگوں نے یورپ کا رخ کیا جہاں پہلے تو ان کے لیے حالات اتنے مشکل نہیں تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ملکوں کی طرف سے پناہ گزینوں کو اپنے ہاں آباد کرنے یا انھیں آنے کی اجازت دینے سے متعلق رویے اور پالیسی میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔

عبدل کا تعلق شام کے علاقے حلب سے ہے اور وہ وہاں زیتون کی کاشت سے وابستہ تھے۔ لیکن اب یہ خستہ حال خیمے میں اپنی دو سالہ بیٹی، دس ماہ کے بیٹے اور حاملہ بیوی کے ساتھ سر چھپائے بیٹھے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم نہیں کہ اب وہ کہاں جائیں اور کیا کریں۔ ان کے بقول وہ واپس نہیں جا سکتے کیونکہ "اب وہاں کچھ باقی نہیں رہا۔ وہاں کوئی مستقبل نہیں۔"

یہیں موجود پالمیرا سے آئی خاتون پناہ گزین اپنی چھ سالہ بیٹی کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انھوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ "شام بہت خوبصورت ہے۔۔۔یا خوبصورت تھا۔"

وہ اپنے خاوند اور تین بچوں کے ساتھ جرمنی جانے کی خواہش رکھتی ہیں جہاں ان کا ایک بھائی رہتا ہے۔

تاحال یہاں عارضی طور پر مقیم ان خاندانوں کا مستقبل واضح نہیں اور نہ ہی ایسے آثار ہیں کہ مقدونیہ کی حکومت ان لوگوں کو اپنی سرحد عبور کر کے یورپ کے دیگر ملکوں تک جانے کی عنقریب اجازت دے دے گی۔

XS
SM
MD
LG