کرد جنگجوؤں کے اتحاد شامی ڈیمو کریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے اعلان کیا ہے کہ وہ ترکی کی سرحد سے 30 کلو میٹر پیچھے جانے کے لیے تیار ہیں۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق ایس ڈی ایف نے اتوار کو ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس نے کرد جنگجوؤں کے ترک سرحد سے پیچھے ہٹنے پر رضامندی ظاہر کی۔
اتوار کو سامنے آنے والے بیان کو دمشق کی طرف سے بھی خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ترکی کو اب شام میں فوجی کارروائی بند کر دینی چاہیے۔
ایس ڈی ایف کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ خونریزی کو روکنے اور خطے کے لوگوں کو ترکی کے حملوں سے بچانے کے لیے وہ ترک-شام سرحد سے دور شمال مشرقی شام میں منتقل ہورہے ہیں۔ جیسا کہ ترک اور روسی صدور کے درمیان ہونے والے معاہدے میں طے پایا تھا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نو اکتوبر کو امریکی فوجیوں کے شام سے انخلا کے اعلان کے بعد ترکی نے شمال مشرقی شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
شامی کرد ملیشیا پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جے) کے جنگجوؤں کو ترکی اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور انہیں سرحد سے پیچھے دھکیلنے کا خواہاں ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان اور روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے درمیان 22 اکتوبر کو معاہدہ طے پایا تھا۔ جس کے مطابق ترکی کے سرحدی محافظ اور روسی ملٹری پولیس سرحد سے 30 کلو میٹر پیچھے کا علاقہ چھ دنوں میں کرد جنگجوؤں سے خالی کرائیں گے۔
خیال رہے کہ سوچی میں طے پائے جانے والے اس معاہدے میں طے کردہ ڈیڈ لائن منگل کو ختم ہو رہی ہے۔
وائی پی جی، ایس ڈی ایف کا مرکزی جزو ہے اور اسے جنوب مشرقی ترکی میں کرد باغیوں سے تعلقات کی وجہ سے انقرہ دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ لیکن ایس ڈی ایف داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اہم حلیف رہا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق ایس ڈی ایف کے بیان میں زور دیا گیا ہے کہ روس، شام کے صدر بشار الاسد اور شمال مشرقی شام میں سرگرم کردوں کے درمیان مذاکرات شروع کرانے میں مدد فراہم کرے۔
روس شامی صدر بشار الاسد کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور روس نے شام میں آٹھ برسوں سے ہونے والی خانہ جنگی کو ختم کرنے اور دہشت گردوں سے علاقے وا گزار کرانے میں مدد فراہم کی تھی۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے ہفتے کو خبردار کیا تھا کہ وائی پی جی ملیشیا نے ترکی اور روس کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے کے مطابق حتمی تاریخ تک سرحدی علاقہ خالی نہ کیا تو ان کے خلاف فوج استعمال کی جائے گی۔