واشنگٹن —
شامی اپوزیشن نے اتوار کے روز امریکی کانگریس پر زور دیا کہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف فوجی کارروائی کی منظوری دے۔ باغیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی بیرونی مداخلت کی صورت میں باغیوں کو مزید ہتھیار فراہم کیے جانے چاہیئں۔
استنبول میں شامی باغیوں کے اتحاد کی جانب سے اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ، ’ایران اور شمالی کوریا جیسے آمریت نواز ممالک اس بات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ شام میں بشار الاسد کی جانب سے معصوم شہریوں پر ہونے والے مہلک کیمیاوی حملے کے بعد دنیا کا رد ِ عمل کیا ہوگا؟‘
بیان میں مزید کہا گیا، ’اگر عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے پر بھی دنیا کی طرف سے شام کو کوئی رد ِ عمل نہ دیا گیا تو یہ ان آمروں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگا جو بشار الاسد کے نقش ِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے۔‘
امریکی صدر باراک اوباما نے ہفتے کے روز اپنے خطاب میں کہا کہ وہ شام کے خلاف کوئی بھی فوجی اقدام اٹھانے سے پہلے کانگریس کی منظوری حاصل کرنا چاہتے ہیں، جس سے شام پر کوئی بھی ممکنہ اقدام اگلے دس دن کے لیے ملتوی ہو گیا ہے۔
اپوزیشن کا کہنا تھا کہ شام گذشتہ تین برسوں سے انتشار کا شکار ہے اور عالمی برادری کی جانب سے اس حوالے سے خاموشی کی وجہ سے بشار الاسد کو شہہ ملی ہے جبکہ شام میں تشدد کو ہوا ملی ہے۔
استنبول میں شامی باغیوں کے اتحاد کی جانب سے اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ، ’ایران اور شمالی کوریا جیسے آمریت نواز ممالک اس بات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ شام میں بشار الاسد کی جانب سے معصوم شہریوں پر ہونے والے مہلک کیمیاوی حملے کے بعد دنیا کا رد ِ عمل کیا ہوگا؟‘
بیان میں مزید کہا گیا، ’اگر عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے پر بھی دنیا کی طرف سے شام کو کوئی رد ِ عمل نہ دیا گیا تو یہ ان آمروں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگا جو بشار الاسد کے نقش ِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے۔‘
امریکی صدر باراک اوباما نے ہفتے کے روز اپنے خطاب میں کہا کہ وہ شام کے خلاف کوئی بھی فوجی اقدام اٹھانے سے پہلے کانگریس کی منظوری حاصل کرنا چاہتے ہیں، جس سے شام پر کوئی بھی ممکنہ اقدام اگلے دس دن کے لیے ملتوی ہو گیا ہے۔
اپوزیشن کا کہنا تھا کہ شام گذشتہ تین برسوں سے انتشار کا شکار ہے اور عالمی برادری کی جانب سے اس حوالے سے خاموشی کی وجہ سے بشار الاسد کو شہہ ملی ہے جبکہ شام میں تشدد کو ہوا ملی ہے۔