واشنگٹن —
شامی اپوزیشن ’فری سیرین آرمی‘ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے سفارتکاری کے ذریعے کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے کے لیے شام پر دباؤ ڈالنے کے منصوبے سے شام میں گذشتہ ڈھائی برس سے جاری خانہ جنگی کا حل نہیں نکالا جا سکے گا۔
باغی کمانڈر ایک ایسے وقت میں ہفتے میں استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے جب شام کے دارالحکومت دمشق میں شدید لڑائی جاری تھی۔
شامی حکومت کے فوجی دستے دمشق کے مضافاتی علاقے میں باغیوں کے زیر ِ تسلط علاقے برزا، مدھامیا اور جوبار میں گھس گئے جہاں باغیوں اور حکومتی فوجی دستوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی۔
دوسری جانب اُس وقت جبکہ دمشق باغیوں اور حکومتی فوج کے درمیان شدید لڑائی کی لپیٹ میں تھا جنیوا میں امریکی اور روسی سفارتکاروں کے درمیان شام کے مسئلے کے حل اور شامی صدر کی جانب سے کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے کے لیے سفارتکاری کے ذریعے شام پر دباؤ ڈالنے کے مجوزہ پلان پر اتفاق کیا جا رہا تھا۔
استبول میں باغیوں کی فوج کے سربراہ سلیم ادریس نے اس پلان کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ روس اس معاملے میں غیر جانبدار فریق نہیں ہے۔
سلیم ادریس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے اس تجویز کی نفی کی ہے کیونکہ اسے شامی صدر بشار الاسد اور ان کی حکومت یا روس پر یقین نہیں ہے جو شامیوں کے قتل ِ عام کے لیے مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔
سلیم ادریس کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ پلان محض ایک بہانہ ہے تاکہ بشار الاسد کی حکومت کے لیے ایک باہر جانے کا محفوظ راستہ فراہم کیا جا سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پلان میں اپوزیشن کے لیے کچھ بھی نہیں ہے جو کہ اپنی لڑائی جاری رکھے گی۔
باغی کمانڈر ایک ایسے وقت میں ہفتے میں استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے جب شام کے دارالحکومت دمشق میں شدید لڑائی جاری تھی۔
شامی حکومت کے فوجی دستے دمشق کے مضافاتی علاقے میں باغیوں کے زیر ِ تسلط علاقے برزا، مدھامیا اور جوبار میں گھس گئے جہاں باغیوں اور حکومتی فوجی دستوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی۔
دوسری جانب اُس وقت جبکہ دمشق باغیوں اور حکومتی فوج کے درمیان شدید لڑائی کی لپیٹ میں تھا جنیوا میں امریکی اور روسی سفارتکاروں کے درمیان شام کے مسئلے کے حل اور شامی صدر کی جانب سے کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے کے لیے سفارتکاری کے ذریعے شام پر دباؤ ڈالنے کے مجوزہ پلان پر اتفاق کیا جا رہا تھا۔
استبول میں باغیوں کی فوج کے سربراہ سلیم ادریس نے اس پلان کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ روس اس معاملے میں غیر جانبدار فریق نہیں ہے۔
سلیم ادریس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے اس تجویز کی نفی کی ہے کیونکہ اسے شامی صدر بشار الاسد اور ان کی حکومت یا روس پر یقین نہیں ہے جو شامیوں کے قتل ِ عام کے لیے مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔
سلیم ادریس کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ پلان محض ایک بہانہ ہے تاکہ بشار الاسد کی حکومت کے لیے ایک باہر جانے کا محفوظ راستہ فراہم کیا جا سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پلان میں اپوزیشن کے لیے کچھ بھی نہیں ہے جو کہ اپنی لڑائی جاری رکھے گی۔