سرگرم کارکنان نےبتایا ہے کہ شامی حکومت نے اتوار کے روز جنوبی شہر، درعا کے کچھ حصوں پر فضائی حملے کیے اور بھاری توپ خانے سے فائر کھولا؛ جس سے ایک روز قبل باغیوں نے اس جنوبی شہر کےسرکاری اہداف پر حملہ کیا تھا۔
درعا کا زیادہ تر حصہ ملبے کا ڈھیر بنا ہوا ہے؛ جب کہ دونوں فریق عمارتوں کے ملبے سے ایک دوسرے پر فائر کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ یہ بات شامی فوج کے میڈیا اور القاعدہ سے وابستہ 'ابا نیوز ایجنسی' نے اختتام ہفتہ کے دِنوں جاری کیے گئے فٹیج میں بتائی ہے۔
مقامی مخالفین سے تعلق رکھنے والے ایک سرگرم کارکن، احمد المسالمہ نے شام کے وقت سرکاری افواج کی جانب سے 90میزائل اور بم گرانے کی کارروائی ریکارڈ کی ہے۔ شام کے فوجی میڈیا فٹیج میں شہر کے اوپر دھوئیں اور دھول کے بادل چھائے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
برطانیہ میں قائم سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ گذشتہ جمعے کے روز سے جاری جھڑپوں کے دوران کم از کم 31 لڑاکوں کو ہلاک کیا گیا ہے، جب کہ دونوں جانب تقریباً ایک ہی تعدد میں ہلاکیں واقع ہوچکی ہیں۔
لڑائی سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایک ماہ قبل روس، ترکی اور ایران کی ثالثی میں کیا گیا کشیدگی میں کمی لانے کا سمجھوتا کارگر نہیں رہا۔ تینوں ملکوں کو شام کے چاروں زونز میں جنگ بندی کی ضمانت کرنی ہے، جن میں درعا بھی شامل ہے۔ روس نے کہا تھا کہ وہ اتوار تک اِن چاروں زونز کی تفصیلی نشاندہی کردے گا۔ لیکن، ابھی تک اس ضمن میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔
اس سے قبل اختتام ہفتہ، باغیوں نے، جن میں القاعدہ سے وابستہ لڑاکے بھی شامل ہیں، شہر کے منشیہ کے ضلعے میں سرکاری اور اتحادی ٹھکانوں پر حملے کیے۔
'ایسو سی ایٹڈ پریس' نے المسالمہ کو بتایا کہ ''حکومت نے کل منشیہ کی جانب 200 افراد کی نفری روانہ کی ہے۔ باغیوں کو اس کارروائی کے بارے میں خوف تھا، اس لیے اُنھوں نے لڑائی میں عجلت کی''۔