بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے متنازعہ لیڈر ونے کاٹیار نے تاج محل کے حوالے سے جاری تنازعے کو آج بدھ کے روز ایک نیا رنگ دے دیا جب اُنہوں نے کہا کہ تاج محل اُس جگہ تعمیر کیا گیا جہاں قدیمی شیوا مندر موجود تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ تاج محل تعمیر کرنے کیلئے شہنشاہ شاہجہان نے یہاں موجود شیوا مندر کو مسمار کروا دیا تھا۔
اس سے قبل پیر کے روز بی جے پی کے ایک اور لیڈر سنگیت سوم کے اس بیان نے ہلچل پیدا کر دی تھی کہ تاج محل بھارت کے ثقافتی ورثے پر ایک ’’دھبہ‘‘ ہے اور اسے ’’دشمنوں‘‘ نے تعمیر کیا تھا جو ہندوؤں کو اپنا ہدف بنا رہے تھے۔
اس کے بعد بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادھتیہ ناتھ کو یہ کہنا پڑا تھا کہ اُن کیلئے یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ تاج محل کس نے اور کیوں بنایا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ تاج محل کو دیکھنے آنے والے سیاحوں سے ریاست کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل کرتی ہے اور یوں یہ آگرہ میں سیاحت کیلئے اہمیت رکھتا ہے۔
قبل اذیں 2015 میں بھی یہ تنازعہ پیدا ہوا تھا جب آگرہ کے چھ وکلا نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا کہ سترھویں صدی میں سنگ مرمر سے تعمیر ہونے والا یہ عالیشان مقبرہ دراصل شیوا مندر کے مقام پر بنایا گیا تھا۔ اس مقدمے میں ایک ہندو دیوی کو شکایت کنندہ ظاہر کیا گیا تھا۔ آگرہ کی عدالت نے اس مقدمے کو قبول کر لیا تھا۔
اس مقدمے میں درخواست کی گئی تھی کہ یہاں سے ممتاز محل سمیت تمام قبروں کو ہٹا کر اس یادگار کی ملکیت ہندوؤں کے حوالے کر دی جائے۔ اس وقت وہاں صرف مسلمانوں کو عبادت کرنے کی اجازت ہے اور اس یادگار سے ملحقہ مسجد میں نماز جمعہ بھی باقاعدگی سے ادا کی جاتی ہے۔
تاہم اُس وقت بھارت کے ثقافتی اُمور کے وزیر ڈاکٹر مہیش شرما نے لوک سبھا میں بتایا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ تاج محل کے مقام پر اس سے پہلے کبھی کوئی ہندو مندر موجود تھا۔
بھارت کے ایک مؤرخ پی این اوک نے 1989 میں لکھی گئی اپنی کتابTaj Mahal: The True Story میں دعویٰ کیا تھا کہ اس یادگار کا نام ’تاج محل‘ دراصل سنسکرت کی اصطلاح ’تیجو محالے‘ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب شیوا مندر ہے۔ تاہم پی این اوک اس سے پہلے بھی ایسے بلند بانگ دعوے کر چکے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلاً اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے ایک وقت میں اٹلی پر قبضہ کر لیا تھا اور ویسٹ منسٹر ایبے کا گرجاگھر بھی کبھی شیوا مندر ہوا کرتا تھا۔ یوں پی این اوک کے دعووں کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
بی جے پی نے ونے کاٹیار کے اس بیان کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ محض اُن کے ’ذاتی خیالات‘ ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے لیڈر اعظم خان نے بی جے پی اور اُتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادھتیہ ناتھ کی وضاحت کو مستر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تاج محل دنیا کے سات عجوبوں میں شامل نہ ہوتا تو اسے بھی اسی طرح مسمار کر دیا جاتا جیسے ایودھیا کی بابری مسجد کو تباہ کیا گیا تھا۔
ونے کاٹیار بھی اُن افراد میں شامل ہیں جن پر بابری مسجد کو تباہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔